دو فوجی کتابیں ایک ساتھ

عبدالقادر حسن  ہفتہ 28 فروری 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کرکٹ کے میدان میں کھلی شکست اور شرمساری کے بعد پریشان اور ناراض پاکستانی گھبرا کر یہ تک کہنے لگے کہ کرکٹ کو بھی درست کرنے کے لیے اسے فوج کے حوالے کر دیں۔

یہ سوال ہمارے بچوں کے ذہنوں میں بھی اتر آیا اور ایک بچے نے یہی سوال مجھ سے بھی کر دیا اس اضافے کے ساتھ کہ اگر فوج نہ ہوتی تو ہم کہاں جاتے اور کس کے پاس جا کر اپنی خرابیوں کا گلہ کرتے اور کس سے ان کے ازالے کی امید کرتے مگر فوج تو ان دنوں پہاڑوں پر دشمنوں کے خلاف جنگ میں لگی ہوئی ہے۔ وہ ہماری کچھ مدد نہیں کر سکتی۔

فوج کے بارے میں قوم کے بچوں تک کا یہ تصور ہے کہ فوج ان کی آخری امید ہے۔ بچوں کو یہ بھی علم ہے کہ فوج ان دنوں عملاً حالت جنگ میں ہے اور وہ کرکٹ وغیرہ کا کچھ نہیں بنا سکتی اور ان بچوں کو یہ بھی علم ہے کہ فوج کبھی حکومت بھی بنا لیتی ہے اور ہماری خرابیوں کو درست کرنے یا ان میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتی ہے ان دنوں جب فوج اپنی اصل ڈیوٹی پر ہے وہ ہر پاکستانی کی امید ہے اور ہر پاکستانی فوج سے پیار کرتا ہے۔

ہمارے دوست قلمکار اسد اللہ غالب نے ہمت کر کے فوج کے بارے میں بر وقت دو کتابیں لکھ دی ہیں اور ان کی بے حد خوبصورت اشاعت بھی کی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں فوج کے بارے میں بہت کچھ ہے ایک کتاب ’’اے وطن کے سجیلے جوانو‘‘ میں ان جانباز سجیلے جوانوں کی داستان ہے جنہوں نے اپنے وطن کی حفاظت میں بڑی شان اور آن بان سے جان دے دی اور سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر کو اپنی خوبصورت زندگی کا عنوان بنا لیا۔

اس میں فوج کی تصویریں بھی ہیں اور فوج کے بارے میں اظہار محبت اور عقیدت بھی۔ کوئی سوا دو سو صفحات پر مشتمل اور کئی تصویروں سے سجی ہوئی یہ کتاب فوج کے ساتھ محبت کو بامعنی طور پر زندہ رکھنے کی کوشش ہے۔ ہم سویلین جو فوج کی صفوں سے باہر زندگی بسر کرتے ہیں مگر فوج کو اپنی ہر مشکل میں یاد کرتے ہیں اس کتاب کا ایک نسخہ اس لیے بھی گھر میں محفوظ کر لینا چاہیے کہ ہمارے بچے اپنی فوج کے بارے میں اصل حقائق سے باخبر رہیں اور وہ فوج کے ساتھ جوان ہوں۔ اس کی پرجوش اور ایمان افروز یادوں کے ساتھ۔

اس کتاب کے 48 مضامین میں بہت کچھ بیان کر دیا گیا ہے۔ مصنف نے اپنے دوسرے ساتھیوں اور فوج سے پیار کرنے والوں کی تحریروں کو بھی جگہ دی ہے اور ان تحریروں کے ساتھ تصویریں بھی۔ غالب نے ہمیں ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ ہماری فوج ہمارے لیے کیا ہے اور ہمیں فوج کو کبھی فراموش تو کجا اس کے ساتھ تعلق کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے۔

ہم مسلمانوں کا ایمان جذبہ جہاد کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور میدان جنگ میں اپنے دین و وطن کے لیے جانبازی ہمارا اعلیٰ ترین اعزاز ہے ایک ایسا اعزاز جس کی خود اللہ تبارک تعالیٰ نے بھی توصیف کی ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہادت پاتے ہیں انھیں مردہ مت سمجھو وہ تمہاری طرح کھاتے پیتے ہیں اور ایک ابدی زندگی بسر کرتے ہیں مگر تم انھیں دیکھ نہیں سکتے۔ ہم مسلمانوں کا شہادت پر اس قدر ایمان ہے کہ کسی شہید کے ماں باپ بھی بیٹے سے جدائی کے باوجود اپنی قسمت پر رشک کرتے ہیں۔

غالب کی دوسری کتاب ’’ضرب عضب‘‘ ہے۔ فوج کی تازہ ترین اور جاری جہاد کی داستان 318 صفحات پر مشتمل فوج کے اس خراج تحسین کو غالب نے بڑی محنت کے ساتھ مرتب کیا ہے اور پھر اس اشاعت میں ممکن حد تک حس و خوبی پیدا کر دی ہے۔ بقول غالب وہ میدان جنگ تو نہیں جا سکے مگر انھوں نے تصاویر کے ذریعے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔

بہت ساری تصاویر ہیں جو بڑی اچھی حالت میں شایع ہوئی ہیں۔ کتاب غالب کے متعدد کالموں پر مشتمل ہے اور فوج کے تازہ ترین جہاد کے بارے میں انھوں نے بہت کچھ لکھ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ مصنف کی پسند و ناپسند بھی واضح ہے مگر اس سے کتاب کی افادیت برقرار رہتی ہے اور قاری کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ یہ کتاب بھی جس عمدہ کاغذ پر شایع کی گئی ہے اور جس طرح اس کی جلد بندی کی گئی ہے وہ سب قابل تعریف ہے دونوں کتابوں کو دیکھ کر بھی ان کو پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔

ان کی تحریریں الگ ایک تحفہ ہیں یہ دونوں کتابیں وقت کی ضرورت ہیں۔ ان دنوں ایسی مزید کئی کتابوں کی ضرورت ہے غالب نے اس کا آغاز کیا ہے اور امید ہے کہ اس موضوع سے دوسرے احباب بھی اس طرف توجہ فرمائیں گے۔ ان کتابوں کی اعلیٰ درجہ کی اشاعت کے باوجود قیمت مناسب ہی ہے۔

ضرب عضب کی قیمت پندرہ سو روپے اور اے وطن کے سجیلے جوانوں کی ایک ہزار روپے۔ دونوں کتابیں مصنف نے خود شایع کی ہیں اور ان کے حصول کا پتہ ہے غالب پبلشرز لنڈن ہاؤس 8-A لارنس روڈ، لاہور۔ فون: 0332-8452580۔ یہ دونوں کتابیں کسی بھی پاکستانی گھر کی آرائش ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔