خیبر پختون خوا میں اعلیٰ تعلیم

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 28 فروری 2015
tauceeph@gmail.com

[email protected]

صوبہ خیبرپختون خوا گزشتہ 3 عشروں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ یہ دہشت گرد اسکول کے بچوں کو نشانہ بناتے ہیں اور معصوم بچوں کا قتلِ عام کرتے ہیں مگر پھر بھی خیبرپختون خوا تعلیمی میدان میں ترقی کی نئی راہیں طے کر رہا ہے۔ خان عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں ذرایع ابلاغ کے کردار کے بارے میں کانفرنس سے یہ حقیقت عیاں ہو گئی۔

یونیورسٹی کے جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن شعبہ کے سربراہ پروفیسر شیراز پراچہ نے ذرایع ابلاغ سے متعلق 4 اہم ترین موضوعات پر بحث و  مباحثے کے لیے ابلاغِ عامہ کے اساتذہ اور سینئر صحافیوں کو ولی خان یونیورسٹی میں مدعو کیا۔  60 سے زائد نامور صحافیوں اور اساتذہ نے آزادانہ ماحول میں ذرایع ابلاغ کے بارے میں بحث و مباحثہ کیا۔

شرکاء میں ڈاکٹر شاہجہاں، ڈاکٹر ظفراقبال، پروفیسر صدف نقوی، روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر ایازخان، ڈاکٹر جبارخٹک، طلعت حسین، سلیم صافی، مجاہد بریلوی، رحمت شاہ آفریدی، خورشید ندیم، نذیر لغاری، طاہر حسن خان، ڈاکٹر ایوب شیخ، فیصل سیانی، روبینہ رشید، عامرخاکوانی، رحیم اﷲ یوسف زئی، اویس توحید، ارشاد احمد اور عارف سہیل وغیرہ نمایاں تھے۔ اس مباحثے میں طلبہ نے بھی بھرپور شرکت کی۔

ایک پسماندہ علاقے میں اتنی بھاری تعداد میں سینئر صحافیوں، اینکرپرسنز، تجزیہ نگاروں، رپورٹروں، ایڈیٹروں، اخباری مالکان اور اساتذہ نے شرکت کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اس قومی مباحثے کو دو دنوں کے دوران 5 سیشنز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ افتتاحی دن کا پہلا موضوع ’’صحافت، بغیر ڈگری کی صحافت ‘‘ تھا۔ دوسرا موضوع ’’پاکستانی ذرایع ابلاغ اور ضابطہ اخلاق ‘‘ اور تیسرا موضوع ’’دہشت گردی کی جنگ، ذرایع ابلاغ اور چیلنج‘‘ تھا۔ دوسرے دن کا پہلا موضوع ’’آن لائن جرنلزم، مسائل اور چیلنجز‘‘، دوسرا موضوع ’’کارپوریٹ میڈیا اور صحافیوں کے حالاتِ کار‘‘ اور تیسرا موضوع ’’رائے عامہ ہموار کرنے میں کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کا کردار‘‘ تھا۔ پاکستان میں ذرایع ابلاغ کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان سے متعلق تمام موضوعات اس قومی کانفرنس کا حصہ تھے۔ کانفرنس کا پہلا سیشن ذرایع ابلاغ میں کام کرنے کے لیے صحافیوں کی اہلیت سے متعلق تھا۔

اس سیشن میں سینئر اساتذہ اور سینئر صحافیوں نے شرکت کی۔ اساتذہ کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے لیے ماس کمیونیکیشن کے مضمون میں ڈگری حاصل کرنا ضروری ہے۔ اساتذہ کا مؤقف تھا کہ الیکٹرانک میڈیا میں پیش کیے جانے والے ٹاک شوز میں گرتا ہوا معیار، خبروں میں معروضیت کی کمی اور بریکنگ نیوز کے نام کے نشر ہونے والے مواد کا خبر کے نام سے نشر ہونے سے نقصانات کا تدارک ڈگری یافتہ صحافیوں کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ سینئر صحافیوں کا یہ مؤقف تھا کہ بہت سے نامور صحافیوں نے بغیر ڈگری کے صحافت کی دنیا میں نام کمایا ہے، لہٰذا ڈگری کوئی لازمی نہیں ہے۔ ایازخان نے خاص طور پر اس نکتے پر زور دیا کہ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے ذرایع ابلاغ کے شعبے میں عملی حصہ بہت کم ہے۔

یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوان عملی تجربہ نہ رکھنے کی بناء پر ذرایع ابلاغ میں زیادہ مفید ثابت نہیں ہوتے۔ اس بحث کو ولی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر احسان علی نے سمیٹا۔ انھوں نے کہا کہ تعلیم اور تربیت کے بغیر صحافت کا معیار بلند نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح پاکستانی ذرایع ابلاغ اور ضابطہ اخلاق کے موضوع پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ اس بحث میں سینئر صحافیوں، اساتذہ اور طلبہ نے بھرپور شرکت کی۔

اس سیشن کے اینکرپرسن نے اس نکتے پر بہت زیادہ زور دیا کہ اب ابلاغِ عامہ کاشعبہ ایک صنعت بن گیا ہے۔ کسی میڈیا ہاؤس کے لیے ریٹنگ اور اشتہارات کی اہمیت سب سے زیادہ ہے مگر صحافیوں نے اس حقیقت کی اہمیت کو اجاگر کیا کہ ضابطہ اخلاق پر عمل کر کے ہی ذرایع ابلاغ کی ساکھ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس سیشن میں ایڈیٹر کے ادارے کی اہمیت کے تناظر میں ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے امکانات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ تیسرے سیشن کا موضوع دہشت گردی کی جنگ میں ذرایع ابلاغ کا کردار تھا۔ اس سیشن میں ان صحافیوں نے اپنی آراء پیش کیں جنہوں نے سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت اور پھر اتحادی افواج کی کابل پر کارروائی سمیت بہت سی جنگوں کو کور کیا تھا۔ یوں دہشت گردی کے دوران صحافیوں کے کردار کا جائزہ لیا گیا۔

ایک صحافی کا کہنا تھا کہ گزشتہ صدی کی آخری دھائی میں افغانستان میں ہونے والی جنگ سے متعلق خبروں میں معروضیت کی کمی ہے اور اس کی اہمیت کو کم کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح فاٹا اور قبائلی علاقوں میں فرائض انجام دینے والے صحافیوں نے دہشت گردی کے واقعات کی رپورٹنگ میں پریشر گروپوں کے دباؤ اور صحافیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کا ذکر ہوا۔ اس بات پر مجموعی طور پر اتفاقِ رائے ہوا کہ رپورٹنگ کے معیار کو بلند کرنے کے لیے صحافیوں کی تربیت اور ان کی جانوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

دوسرا دن اتوار کا تھا، اگرچہ یہ ہفتہ وار تعطیل کا دن ہے مگر اساتذہ اور طلبہ خاصی تعداد میں اس دن بھی موجود تھے،  تعطیل کے باوجود وقت پر نیا سیشن شروع ہوا۔ اس سیشن میں آن لائن جرنلزم، فیس بک، ٹوئٹر اور بلاگس پر ہونے والے بحث  میں مختلف نوعیت کی رائے سامنے آئی۔ نوجوان صحافیوں کا کہنا تھا کہ صحافت کے اس نئے جدید شعبے کو ریگولیٹ کرنے سے اس کی افادیت کم ہو جائے گی۔ اسی طرح سینئر اینکر پرسن اور شرکاء نے ادارتی کنٹرول نہ ہونے کے مضمرات کا جائزہ لیا۔ سینئر صحافیوں کا کہنا تھا کہ اس نئے میڈیم کو معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اخلاقی ضوابط کا اطلاق ضروری ہے۔ ایک خاتون تجزیہ نگار نے یو ٹیوب کی بندش  پر کہا کہ اس بندش سے معلومات کے ذرایع محدود ہو گئے ہیں۔

بلوچستان یونیورسٹی کی استاد پروفیسر صدف نقوی نے بلوچستان سے متعلق مختلف ویب سائٹس پر عائد پابندیوں کا ذکر کیا، یوں یہ رائے بھی سامنے آئی کہ جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر وجود میں آنے والے اس میڈیم پر پابندیوں سے اس کی افادیت ختم ہو جائے گی۔ اس دن کا بھرپور سیشن کارپوریٹ میڈیا اور صحافیوں کے حالاتِ کار تھا۔ سینئر صحافی ایاز خان اس سیشن کے اینکرپرسن تھے۔ اخباری مالکان، ایڈیٹرز اور صحافی شرکاء بھی اس میں شامل تھے۔ اس سیشن میں بھرپور بحث مباحثہ ہوا۔

مالکان نے اپنے مسائل پیش کیے، ایڈیٹرز نے اپنے تجربات بیان کیے جب کہ صحافیوں نے ویج بورڈ پر عملدرآمد اور اس کے غیر مؤثر ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا۔ اس سیشن میں دیہی علاقوں میں فرائض انجام دینے والے صحافیوں کے مسائل پر خاطرخواہ بحث ہوئی۔ سینئر اینکرپرسن ایاز خان نے اس سیشن میں مکمل غیر جانبداری کا ثبوت دیا۔ شرکاء کو کھل کر اپنی رائے پیش کرنے کا موقع ملا۔ طالب علموں نے بہت سے سوالات کیے جس پر انھیں معلومات سے بھرپور جوابات ملے۔

اس کانفرنس کا آخری سیشن رائے عامہ کی تشکیل میں کالم نگاری اور تجزیہ نگاروں کا کردار تھا۔ ایڈیٹروں ، صحافیوں اور اساتذہ کی یہ متفقہ رائے تھی کہ کالم نگار اور تجزیہ نگار اپنی تحاریر کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں مفید کردار ادا کر رہے ہیں مگر جو کالم نگار مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور جمہوری نظام کی اہمیت کو کم کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر طالع آزما قوتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ اس کانفرنس میں اہم کردار خان عبدالولی خان کی یونیورسٹی کی انتظامیہ، اساتذہ اور طلبہ کا تھا۔

یہ یونیورسٹی 2008ء میں قائم ہوئی۔ ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر احسان اﷲ اس کے وائس چانسلر ہیں۔ گو کہ اس یونیورسٹی کی عمر صرف 6 سال ہے مگر اس مختصر عرصے میں یونیورسٹی نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ اس وقت اس یونیورسٹی میں 22 تعلیمی شعبے قائم ہو چکے ہیں اور اساتذہ کی تعداد 311 ہے۔ ان میں سے 114 اساتذہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہیں۔ 43 اساتذہ امریکا، یورپ اور چین سے پی ایچ ڈی کر کے آئے ہیں۔

یونیورسٹی میں طلبہ کی تعداد 7069 ہے جن میں سے 38 فیصد خواتین ہیں۔ خان عبدالولی خان یونیورسٹی کا اپنا ترانہ ہے جو پشتو موسیقی کی آمیزش سے یونیورسٹی کے ترقی پسندانہ تشخص کو اجاگر کرتا ہے۔ اس یونیورسٹی کا ایک اہم شعبہ جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن ہے۔ سینئر صحافی پروفیسر شیراز پراچہ اس شعبے کے سربراہ ہیں۔ پروفیسر شیراز پراچہ نے اپنی زندگی کا ایک حصہ برطانیہ میں گزارا ہے، یوں شیراز پراچہ نے یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری کے افتتاح کے موقعے پر ٹاک شو کے خوبصورت سیٹ پر دو روزہ قومی کانفرنس کا اہتمام کیا۔

اس طرح انھوں نے محض ذہن میں ترتیب دیے گئے جس آئیڈیا کو عملی شکل دی اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر احسان اﷲ نے اس کانفرنس کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کیا، دو دن تک صبح سے سہہ پہر تک کانفرنس میں موجود رہے اور بہت چھوٹے چھوٹے مسائل پر توجہ دی۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور غیر تدریسی عملے نے بھی اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد میں بھرپور محنت کی۔

طالب علموں نے تمام کارروائی میں بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا،  ایک ایسی مثال قائم ہوئی جس کی باقی یونیورسٹیوں کے لیے پیروی کرنا مشکل ہو گا۔ شیراز پراچہ کی اس جرات مندانہ کوشش سے ثابت ہو گیا کہ انتہاپسند اور رجعت پسند طاقتیں تعلیم کا راستہ نہیں روک سکتیں اور کامیابی خیبرپختونخوا کے عوام کا مقدر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔