ملک کی تقدیر بدل دینے والا چنیوٹ کا معدنی خزانہ

سید عاصم محمود  اتوار 1 مارچ 2015
سونے ،تانبے اور خام لوہے کے ذخائر قومی معشیت مضبوط بنانے میں مددگار بن سکتے ہیں ۔  فوٹو : فائل

سونے ،تانبے اور خام لوہے کے ذخائر قومی معشیت مضبوط بنانے میں مددگار بن سکتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

یہ 1956ء کی بات ہے‘ جرمنی کے اسٹیل ساز ادارے‘ فریڈرچ کرپ اے جی ( Friedrich Krupp AG)نے تب کے پاکستانی حکمران ٹولے سے رابطہ کیا۔

فریڈرچ کرپ اے جی دنیا میں سب سے بڑا اسٹیل ساز ادارہ تھا۔ اسی نے جرمنی کو صنعتی ومعاشی جن بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ یاد رہے‘ تیل اور اسٹیل کی دریافت کے بعد ہی دنیا میں ترقی و خوشحالی کا دور جدید شروع ہوا۔ آج اسٹیل کئی مصنوعات کی تیاری اور صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔

فریڈرچ کرپ اے جی کمپنی ملتان کے مضافات میں واقع بستی پیراں غائب میں ایک چھوٹی اسٹیل مل لگانا چاہتی تھی۔اس مل میں سالانہ 70 ہزار ٹن اسٹیل تیار کرنے کی گنجائش ہوتی۔ اسیٹل تیار کرنے کے لیے ’’خام لوہا‘‘ (IRON ORE) ضلع میانوالی سے لایا جانا تھا۔ وہاں پاکستان جیالوجیکل سروے کے ماہرینِ ارضیات زیر زمین و عیاں چٹانوں میں خام لوہے کی موجودگی دریافت کر چکے تھے۔

اعداد و شمار کے مطابق چیچالی (ضلع میانوالی) کے علاقے میں 37 کروڑ ٹن خام لوہا موجود تھا۔ گو اس کی کوالٹی زیادہ معیاری نہیں تھی مگر وہ اتنا اچھا ضرور تھا کہ اس سے مل میں اسٹیل تیار ہو سکے۔

1956ء میں پاکستان میں سیاست دانوں‘ افسر شاہی اور فوج کے مابین مناقشہ چل رہا تھا۔ حکمرانوں کو اپنی کرسیاں بچانے کی پڑی تھی‘ لہٰذا وہ ملکی تعمیر و ترقی پر کیسے دھیان دیتے؟ چنانچہ جرمن کمپنی کا منصوبہ سیاسی حالات کی نذر ہو گیا۔ یوں حکمران ٹولے نے قیام پاکستان کے صرف نو برس بعد ایک اسٹیل مل لگانے کا سنہرا موقع ہاتھ سے گنوا دیا۔

٭٭

اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو ان گنت قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ افسوس ہمارے مفاد پرست حکمران ان قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا کر ملک وقوم کو ترقی یافتہ و خوشحال نہیں بنا سکے۔(گو وہ خود امیر سے امیر تر ہو گئے۔) قول ہے:’’حکمران وہ ہے جو راہ عمل کو جانے‘ اعتماد و یقین سے اس پر گامزن ہو اوردوسروں کو بھی صحیح راستہ دکھائے۔‘‘ مگر قائداعظمؒ کے بعد پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے سوچنے و کام کرنے والا کوئی لیڈر ہمیں میّسر نہیں آ سکا۔

پاکستان میں دو ارب ٹن سے زائد خام لوہے کے ذخائر موجود ہیں‘ لیکن حکمرانوں نے تھر کوئلے کی طرح انہیں بھی کوڑا سمجھ کر ایک طرف ڈالے رکھا۔ حال ہی میں دھوم دھڑکے سے یہ خبر سننے کو ملی کہ ضلع چنیوٹ میں 60 کروڑ ٹن سے زائد خام لوہے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ ان ذخائر کی داستان بھی ہمارے حکمران ٹولے کی بے حسی و مفاد پرستی افشا کرتی ہے۔

ماضی میں ہندوستانی و انگریز ماہرین نے پیشن گوئی کی تھی کہ ضلع چنیوٹ کی زمین کی نیچے خام لوہا مل سکتا ہے۔1989ء میں جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے ماہرین ارضیات نے آخر اس قدرتی خزانے کے ذخائر دریافت کر لیے ۔ انہوں نے اپنی تحقیقی رپورٹ افسران بالا کو پیش کی۔ سرکاری افسر نے ایک نظر اس پر ڈالی پھر اسے فائلوں کے انبار میں پھینک دیا۔

ایک عشرہ بیتا‘ تو حکومت پنجاب کی افسر شاہی کو رپورٹ کا خیال آیا۔ گرد جھاڑ کر اسے برآمد کیا گیا۔ اب ایک بین الاقوامی ارضیاتی کمپنی نے ضلع چنیوٹ کا سروے کیا۔ انکشاف ہوا کہ وہاں زیر زمین واقعی خام لوہے کی بڑی تعداد موجود ہے۔ حکمرانوں نے ’’واہ واہ‘‘ کے نعرے لگائے‘ میڈیا کے سامنے تصویریں کھنچوائیں … اور پھر سکوت چھا گیا۔

یہ سکوت طویل انتظار کے بعد پچھلے سال ٹوٹا جب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے چینی کمپنی‘ میٹالورجیکل کارپوریشن آف چائنا کو یہ ذمے داری سونپی کہ وہ زیر زمین خام لوہے کی مقدار معلوم کرے۔ چینی کمپنی کے ماہرین ارضیات کی تحقیق سے دریافت ہواکہ چٹانوں میں 60 فیصد سے زائد خام لوہا موجود ہے۔ یہی خصوصیت ضلع چنیوٹ کے ذخائر کو بہت اہمیت دے ڈالتی ہے۔

یاد رہے، عالمی لحاظ سے چنیوٹ میں خام لوہے کے ذخائر اہم نہیں… آسٹریلیا میں سترہ ارب ٹن خام لوہا موجود ہے۔ اس کے بعد برازیل (16 ارب ٹن)‘ روس( 14 ارب ٹن)‘ چین (8 ارب ٹن) اور بھارت(پانچ ارب ٹن) کا نمبر آتا ہے۔ لیکن خام لوہے کے ہمارے مقامی ذخائر اسٹیل و فولاد کی ملکی طلب ضرور پوری کر سکتے ہیں۔ یوں نہ صرف ہم خودانحصاری کی راہ پر گامزن ہوں گے بلکہ قیمتی زرمبادلہ بھی بچا سکیں گے۔

چین‘ بھارت‘ برازیل اور دیگر ا یشیائی و افریقی ممالک کی زبردست ترقی کے باعث عالمی مارکیٹ میں اسٹیل کی مانگ ہے۔ کراچی کی ہماری اسٹیل مل سالانہ ایک کروڑ ٹن سے زائد اسٹیل تیار کر سکتی ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی نااہلی و مفاد پرستی نے اس عظیم قومی ادارے کو بھی تباہ کر کے رکھ دیا۔

ہوا یہ کہ خام لوہے کے مقامی ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے بجائے پاکستان اسٹیل کی خاطر مہنگا خام لوہا اور کوک (کوئلہ) درآمد کیا گیا۔ چنانچہ پاکستان اسٹیل میں بنی مصنوعات اتنی زیادہ مہنگی ہو گئیں کہ وہ مقامی و عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک کی نسبتاً سستی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر سکیں۔ لہٰذا قومی ادارہ مصنوعات کی عدم فروخت سے خسارے میں چلا گیا۔ ستم یہ کہ کرپشن نے بھی اسے سفید ہاتھی بنا ڈالا۔ آج یہ حال ہے کہ پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ کے پاس تنخواہ دینے کو بھی پیسے نہیں اور وہ حکومت سے امداد طلب کرتی رہتی ہے۔

ضلع چنیوٹ میں خام لوہا‘سونا اور تانبا رکھنے والی چٹانیں زیر زمین وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق دریائے چناب کی قربت کے باعث علاقے میں زیر زمین پانی بکثرت ہے۔ اسی لیے کھدائی میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔ مزید برآں کئی مقامات پر شہر،دیہات اورکھیت واقع ہیں۔ لہٰذا دوران کھدائی ہزار ہا لوگوں کو نئے مقامات پر آباد کرنا پڑے گا۔ یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔تاہم قول ہے’’:اُمید پرست ہر مشکل کو سنہرے موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔‘‘ لہٰذا پنجاب حکومت کو چاہیے‘ وہ چنیوٹ میں کان کنی کا منصوبہ غور و فکر سے بنائے اور ساری خوبیاں و خامیاں مد نظر رکھے۔

اس وقت عالمی مارکیٹ میں فی کلو سونے کی قیمت 39,565 ڈالر(چالیس لاکھ روپے سے زائد)، فی ٹن تانبے کی 5766 ڈالر (ساڑھے اٹھاون ہزار روپے)اور اسٹیل کی 621ڈالر(چھ ہزار تین سو روپے) ہے۔ فی ٹن خام لوہے کی قیمت پچھلے چار برس سے مسلسل گر رہی ہے۔ وہ2011ء میں 187ڈالر (انیس ہزار روپے)تک پہنچ گئی تھی‘ مگر اب فی ٹن خام لوہا 68 ڈالر (تقریباً سات ہزار روپے)پر دستیاب ہے۔

چنیوٹ کی معدنی کانوں میں خام لوہے کی مقدار سب سے زیادہ ہے۔ پھر تانبے اور سونے کا نمبر آتا ہے۔ یاد رہے، ایک کان میں لوہے کی مقدار 30 فیصد سے کم ہو، تو اسے کھودا نہیں جاتا۔ وجہ یہ کہ آمدن سے اخراجات پورے نہیں ہوتے ۔تاہم کان میں صرف 0.01 فیصد سونا بھی ہو تو اسے کھودنا منافع بخش سمجھا جاتا ہے۔

ضلع چنیوٹ سے نکلا خام لوہا اسی وقت فائدہ دے گا جب اس سے اسٹیل بنایا جائے۔چٹانی مادے سے لوہا نکالنے کا عمل بلاسٹ فرنس میں انجام پاتا ہے۔ خام لوہے، کوک اور چونے کے پتھر کا آمیزہ بلاسٹ فرنس میں ڈال کر انتہائی بلند درجہ حرارت میں پکایا جاتا ہے۔ تب خام لوہا پگھل کر کچے لوہے (Pig Iron) میں ڈھلتا ہے۔یہی اسٹیل بنانے میں کام آتا ہے۔

کوک زیادہ کاربن رکھنے والا کوئلہ ہے۔ پہلے کوک کوئلے کی صرف ایک قسم، بٹومائنوس (Bituminous) سے بنتا تھا۔ مگر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب لائگنیٹ (Lignite) کوئلے سے بھی کوک بن رہا ہے ۔ پاکستان میں یہی لائگنیٹ کوئلہ زیادہ پایا جاتا ہے۔

اسٹیل کی تیاری میں کوک کا اہم کردار ہے۔ پاکستان اسٹیل مل فی الوقت یہ ایندھن باہر سے منگواتی ہے۔ لیکن جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کوئلے کو کوک میں بدل کر ہم اس شعبے میں بھی خود انحصار ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر ثمر مبارک مند پنجاب منرل ڈویلپمنٹ کمپنی کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو مشورہ دیا ہے کہ چنیوٹ کی کانیں غیر ملکی کمپنیوں کو لیز پر نہ دی جائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کمپنیاں بس طے شدہ ریٹ کے مطابق لوہا، تانبا اور سونا نکالیں اور حکومت کے حوالے کردیں۔ حکومت پھر بہ مطابق نرخ انہیں عالمی مارکیٹ میں فروخت کردے۔ ڈاکٹر ثمرمند کا کہنا ہے کہ کان کسی غیر ملکی کمپنی کو لیز پر دینے سے بیشتر منافع وہ لے جاتی ہے جبکہ ملک و قوم کے ہاتھ میں مونگ پھلیاں ہی آتی ہیں۔

حقائق سے عیاں ہے کہ قدرت نے پاکستان کو قدرتی خزینے عطا کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ ان فطری خزینوں کے ذریعے وطن عزیز معاشی طاقت بن سکتا ہے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ قوم کو مخلص، محنتی اور مفاد پرستی سے مبّرا محبت وطن قیادت مّیسر آجائے۔ تبھی ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعمیر ہوسکتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے موجد، تھامس ایڈیسن نے کہہ رکھا ہے:

’’ترقی کے صرف دو راستے ہیں:جدوجہداور اخلاص۔‘‘

پاکستان میں ذخائر
دنیا کے کئی میدانی علاقوں میں بعض علاقے زیر زمین اور عیاں مخصوص چٹانیں رکھتے ہیں۔ یہ چٹانی علاقہ ارضیاتی اصطلاح میں ’’شیلڈ‘‘ (Shield) کہلاتا ہے۔ ہمارے صوبہ پنجاب میں بھی شاہ کوٹ، سانگلہ ہل، چنیوٹ سے لے کر سرگودھا تک شیلڈ چٹانی علاقہ پھیلا ہوا ہے۔

شیلڈ چٹانی علاقے میں چٹانیں ’’متبدل‘‘ (Metamorphic) ہوتی ہیں یا ’’آتشی‘‘ (Igneons)۔ اس شیلڈ علاقے کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں عموماً معدنیاتی دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً دنیا کا 75 فیصد نکل (Nickel) کینیڈین شیلڈ سے نکلتا ہے۔

ہمارے ہاں چنیوٹ کے شیلڈ علاقے میں خام لوہا، سونا، تانبا اور چاندی پایا گیا ہے۔ ضلع چنیوٹ کا رقبہ 2643 مربع کلومیٹر ہے اور ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ اس علاقے کی زیر زمین و عیاں چٹانوں سے 60 کروڑ ٹن تک خام لوہا نکل سکتا ہے۔

یاد رہے، پاکستان میں خام لوہے کے سب سے بڑے ذخائر ضلع میانوالی میں مکڑوال کے نزدیک واقع سرگھار پہاڑی سلسلے میں پائے گئے ہیں۔ ان کی مقدار 70 کروڑ ٹن سے زیادہ ہے۔ تاہم ان چٹانوں میں لوہے کی مقدار 32 تا 38 فیصد ہے۔ اس لیے چٹانوں سے خام لوہا نکالنا مہنگا عمل ثابت ہوگا۔ضلع میانوالی ہی میں کالا باغ کے نزدیک واقع علاقہ چیچالی کی چٹانوں میں 37 کروڑ ٹن خام لوہا موجود ہے۔ ان چٹانوں میں بھی خام لوہے کی مقدار 35 فیصد تک ہے۔

ضلع ڈیرہ غازی خان میں فورٹ منرو کے نزدیک واقع پہاڑی علاقے میں خام لوہا دریافت ہوچکا۔ ماہرین ارضیات کی رو سے اس کی مقدار تقریباً 27 کروڑ ٹن ہے۔ یاد رہے، اسی علاقے میں پاکستان میں جپسم کی سب سے بڑی کان بھی واقع ہے۔ ڈیرہ غازی خان کی چٹانیں بھی 35 فیصد تک خام لوہا رکھتی ہیں۔

صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھی خام لوہا دریافت ہوچکا۔ تاہم سبھی علاقوں کی چٹانوں میں خام لوہے کی مقدار 30 تا 35 فیصد ہی ہے۔ ان علاقوں کے نام یہ ہیں: دلبنداورمستنگ (20 کروڑ ٹن) اور نوکنڈی (50 تا 10 کروڑ ٹن)۔

صوبہ خیبرپختونخوا میں ایبٹ آباد اور ہری پور کے مختلف پہاڑی علاقوں میں خام لوہا مل چکا۔ وہاں چٹانوں میں 9 تا 50 فیصد خام لوہا موجود ہے۔ ان علاقوں میں 10 کروڑ ٹن تک خام لوہے کے ذخائر موجود ہیں۔

ضلع چترال کے علاقے دروش کی چٹانوں میں بھی خام لوہا دریافت ہوا۔ چٹانوں میں 55 تا 65 فیصد خام لوہا موجود ہے۔ مگر چترالی ذخائر کی مقدار صرف 30 لاکھ ٹن ہے۔

لوہے کی کہانی
چٹانوں میں پائے جانے والے خام لوہے کی پانچ بڑی اقسام ہیں: میگنیٹائٹ، ہیما ٹائٹ، جیوتھائٹ، لائمونائٹ اور سایڈ رائٹ ۔جن چٹانوں میں میگنیٹائٹ کی مقدار 72 فیصد اور ہیما ٹائٹ 70 فیصد ہو، انہیں براہ راست بلاسٹ فرنس میں ڈالا جاتا ہے۔ یعنی ان چٹانوں میں کوک اور چونا ملانے کی ضرورت نہیں پڑتی،کچ لوہا خود ہی بن جاتا ہے۔

زمین میں لوہا سب سے زیادہ ملنے والا چوتھا معدن ہے۔ مگر اس کی بیشتر مقدار سیلیکٹ (Silicate) مرکبات اور کاربنی معدنیات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔چونکہ سلیکیٹ مرکبات سے لوہے کو علیحدہ کرنا کٹھن اور مہنگا عمل ہے، اس لیے انسان بیشتر لوہا چٹانوں ہی سے حاصل کرتا ہے۔ خیال ہے کہ دنیا بھر کی چٹانوں میں اب بھی 60 ارب ٹن سے زیادہ خام لوہا موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔