جیل سیکیورٹی کے دعوے اور زمینی حقائق

ایڈیٹوریل  اتوار 1 مارچ 2015
چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سکندر سلطان راجہ نے آئی جی جیل خانہ جات فیصل احمد، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل سمیت ڈیوٹی پر موجود تمام عملے کو معطل کر کے اعلیٰ سطح کی انکوائری شروع کر دی ہے۔فوٹو : فائل

چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سکندر سلطان راجہ نے آئی جی جیل خانہ جات فیصل احمد، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل سمیت ڈیوٹی پر موجود تمام عملے کو معطل کر کے اعلیٰ سطح کی انکوائری شروع کر دی ہے۔فوٹو : فائل

نانگا پربت بیس کیمپ اور چلاس واقعے میں ملوث 4 خطرناک قیدیوں کے ڈسٹرکٹ جیل گلگت سے فرار ہونے کا واقعہ جیل سیکیورٹی کے حوالے سے سخت مایوس کن ہے، ایک ایسی ڈسٹرکٹ جیل سے قیدیوں کا فرار ہونا جو کسی فولادی قلعہ کی طرح تھی اور اس کی فصیل جیسی سنگلاخ دیواروں کو پھلانگنا ممکن نظر نہیں آتا ایک زبردست اور ناقابل یقین سیکیورٹی لیپس کے سوا کچھ نہیں۔

جو اس امر کا تقاضہ کرتی ہے کہ جیل حکام خود احتسابی کے ساتھ اس غفلت اور تساہل کے مضمرات کا ادراک کریں اور صوبائی حکومت کے حکام سیکیورٹی کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھیں کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ پر پاک فوج مامور ہے جب کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں، سیاسی و مذہبی جماعتوں، عسکری قیادت اور قومی اتفاق رائے سے دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں کی انسانیت سوز کارروائیوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔

ادھر فاٹا میں ہمارے فوجی جوان وطن کی سلامتی اور بدامنی کے خاتمہ کے لیے اپنی جانیں نثار کر رہے ہیں، ایسی پر آشوب صورتحال میں جیل سے قیدیوں کے ایک بار پھر فرار کی اطلاع سخت تشویش ناک ہے، جس کے قوم کی نفسیات اور ملکی سیاسی صورتحال پر نہ صرف منفی اثرات مرتب ہونگے بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں داخلی ملک دشمنوں کے مذموم عزائم کی بیخ کنی میں دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

جیل حکام کم از کم اس بات کا تو احساس کرتے کہ خیبر پختونخوا کی تین جیلوں پشاور، ہری پور اور ڈی آئی خان کے حکام کو وارننگ دی جا چکی تھی اور انٹیلی جنس رپورٹوں میں انھیں خبردار کیا گیا تھا کہ ان جیلوں کے ہائی پروفائل اور خطرناک قیدیوں میں سخت مزاحمانہ رویہ دیکھا گیا ہے اور اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ جیلیں ٹارگٹ کی جا سکتی ہیں، یہ انتباہ 6 جون 2014ء کو جاری کیا گیا تھا۔ کتنی عجیب پسپائی اور کیسا بزدلانہ طرز عمل ہے کہ اسامہ فیم شکیل آفریدی کو کسی صوبہ کی بشمول گلگت بلتستان کوئی جیل رکھنے پر تیار نہیں ہوئی۔ جب کہ جیل وارداتوں پر انٹر پول نے القاعدہ پر شک ظاہر کیا تھا۔

یاد رکھنا چاہیے کہ بنوں سینٹرل جیل پر رات کی تاریکی میں 200 مسلح طالبان کمانڈوز نے حملہ کیا اور اپنے400 قیدی چھڑوا کر لے گئے تھے جس میں 45 بعد میں گرفتار کیے گئے، سندھ اور کراچی جیل کے بارے میں بھی سیکیورٹی سخت کرنے کی ہدایات دی گئی تھی۔ جب کہ کراچی سینٹرل جیل سے متصل آبادی میں قیدیوں کی طرف سے سرنگ تک کھودی جا چکی تھی۔ اس سے قبل خیبرپختونخوا حکومت نے جیل بریک وارداتوں کو کمزور انٹیلی جنس قرار دیا تھا مگر اب کیا ہوا۔

یہ واردات قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے دوران کس طرح ہوئی اور سیکیورٹی کے انتظامی دعوے کیا ہوئے؟ بہرحال اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے خلاف شدید رد عمل سے غافل جیل حکام کو سیکیورٹی کے حوالے سے نئی ہدایات اور الرٹ رکھنے کی مزید ضرورت ہے۔ بلاشبہ نتیجہ تو یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بنوں سمیت ملک کی دیگر جیلوں سے قیدیوں کے فرار کی وارداتوں سے گلگت جیل حکام نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ بدستور کسی ’’گریٹ اسکیپ‘‘ جیسے فلمی منظر نامہ کے منتظر رہے۔ بتایا جاتا ہے جیل عملے کی فائرنگ سے ایک قیدی بلال ہلاک اور دوسرا دلبر خان شدید زخمی ہو گیا۔

جب کہ حبیب اور لیا قت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جن کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔ مفروروں کی اطلاع دینے والوں کو حکومت نے 20 لاکھ روپے کا انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ گلگت بلتستان کے سیکریٹری داخلہ سبطین احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ فرار ہونیوالے 2 قیدیوں کی تلاش کے لیے پاک آرمی کے خصوصی ہیلی کاپٹرز کی مدد سے سرچ آپریشن جاری ہے، انھوں نے کہا کہ چاروں قیدیوں کے مقدمات زیرِ سماعت تھے ان میں سے کوئی بھی سزا یافتہ مجرم نہیں تھا۔

مارا جانے والا قیدی بلال نانگا پربت میں غیر ملکیوں پر حملے میں ملوث تھا جب کہ فرار ہونے والوں میں سے بھی ایک قیدی اسی معاملے کا ملزم ہے۔ واضح رہے کہ 23 جون 2013ء کو نانگا پربت بیس کیمپ پر دہشتگردوں نے رات کی تاریکی میں حملہ کر کے 10 غیر ملکیوں اور ایک پاکستانی کو قتل کیا تھا، اس واقعے کے ایک ماہ بعد چلاس میں پاک فوج کے ایک کرنل اور SP دیامر کی گاڑی پر حملہ کر کے شہید کر دیے گئے تھے۔

ان واقعات میں ملوث ملزمان اور 7 دیگر کیسز کو حال ہی میں گلگت میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شارٹ لسٹ کر کے حتمی منظوری کے لیے وزارت داخلہ اسلام آباد بھیجا تھا جہاں سے منظوری کے بعد ان کیسوں کو فوجی عدالتوں میں منتقل کیا جانا تھا۔ جیل بریک کا یہ واقعہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی بتایا جاتا ہے۔

دریں اثناء وزیراعظم نواز شریف نے گلگت جیل سے دو دہشتگردوں کے فرار کا نوٹس لے لیا ہے اور سیکیورٹی میں غفلت برتنے والوں کا تعین کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایک ٹی وی کے مطابق انھوں نے کہا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی تھی تو گلگت حکومت نے وفاقی حکومت کو کیوں آگاہ نہیں کیا؟ جب کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے، شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات کے دوران اہلسنت والجماعت کے علاقائی عہدیدار اور ایک خاتون سمیت 5 افراد جاں بحق جب کہ 2 افراد زخمی ہو گئے۔ جوہر کمپلیکس بلاک7 میں موٹرسائیکل سوار ملزمان کی فائرنگ سے30 سالہ مولانا یاسر جاں بحق ہو گئے۔

پولیس کے مطابق مولانا یاسر اہلسنت و الجماعت کے علاقائی عہدیدار جب کہ زخمی ہونے والا جماعت کا رکن ہے۔ اس واقعہ کے شواہد بتاتے ہیں کہ کراچی میں فرقہ وارانہ تشدد اور گینگسٹرازم پھر سے سر اٹھا رہا ہے، جب کہ بفر زون میں بینک ڈکیتی کی انوکھی واردات سے شہریوں کے پولیس و رینجرز پر اعتماد کو زبردست دھچکا لگا ہے جس میں ایک اکیلے ڈاکو نے 3 سیکیورٹی گارڈز اور عملے کو یرغمال بنا کر 10 لاکھ روپے سے زائد رقم لوٹ لی اور فرار ہو گیا۔

چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سکندر سلطان راجہ نے آئی جی جیل خانہ جات فیصل احمد، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل سمیت ڈیوٹی پر موجود تمام عملے کو معطل کر کے اعلیٰ سطح کی انکوائری شروع کر دی ہے۔ جب کہ نگران وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان شیر جہاں میر نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

یونان کے فلسفی سسرو نے کہا تھا ’’دشمن ہمارے گیٹ کے اندر ہے، ہماری عیش پرسی میں، ہماری لغزشوں میں، ہماری مجرمانہ سرگرمیوں میں ہے جس سے ہم مطمئن سے رہتے ہیں۔‘‘ کیا غلط کہا تھا اس مرد قلندر نے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔