مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کے آثار

زمرد نقوی  اتوار 1 مارچ 2015
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے پر اسرائیلی وزیربن یامین نیتن یاہو کا مؤقف غلط ہے۔ نیتن یاہو نے امریکا اور دیگر ممالک پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کی کوششیں ترک کر دی ہیں۔ جب سے امریکا ایران مذاکرات شروع ہوئے ہیں اسرائیل سخت غصے اور پریشانی کا شکار ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم نے ان مذاکرات کے حوالے سے اوباما انتظامیہ پر جو انتہائی تنقیدی اور کھردری زبان استعمال کی ہے اس کا وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے جواب دیتے ہوئے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ مذاکرات کے حوالے سے تفصیلات کو مسخ کر رہا ہے تا کہ مذاکرات کو ناکام کیا جاسکے۔

اسرائیلی وزیراعظم نے الزام لگایا ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں جو ڈیل ہو گی وہ بری اور خطرناک ہو گی اور وہ اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ایران سے مذاکرات میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبر برطانیہ، چین، فرانس، روس، امریکا اور جرمنی شامل ہیں۔ یعنی دنیا کی تمام بڑی طاقتیں ایران سے مذاکرات کر رہی ہیں۔ اسی سے ان مذاکرات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان مذاکرات پر ہی دنیا کے امن کا انحصار ہے۔ یعنی ایک طرف ایران ہے تو دوسری طرف دنیا کی بڑی طاقتیں۔

یہی چیز اسرائیل کو پریشان کر رہی ہے کہ متوقع معاہدے کو عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہوگی جب کہ اسرائیل کے نزدیک اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ ایران پر حملہ کر دیا جائے جس میں اسے عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہو لیکن ایران پر حملہ کرنا اتنا آسان نہیں کیونکہ سب کے مفادات ڈوب جائیں گے اور ہاتھ کسی کے کچھ بھی نہیں آئے گا۔ ویسے بھی دنیا بدل چکی ہے وقت بدل چکا ہے۔ افغانستان عراق کے حالات سے سب نے سبق سیکھ لیا ہے۔ یہ ڈیل صرف ڈیل نہیں ہو گی بلکہ تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گی جس کے اثرات نہ صرف مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک بلکہ پوری دنیا پر پڑیں گے۔

اس کو ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان صرف ڈیل نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ مشرق وسطیٰ میں بہت بڑی چیزوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یعنی مشرق وسطیٰ کا ’’استحکام‘‘ وہ استحکام اور بندوبست جسے ایرانی انقلاب نے 36 سال پہلے تہہ و بالا کر دیا تھا۔ جس کی بحالی کے لیے امریکا نے صدام کی سرپرستی کر کے عراق ایران جنگ کرائی لیکن بات نہیں بنی۔ پھر طالبان القاعدہ اور داعش کو میدان میں لانا پڑا۔ لیکن یہ آگ اپنے دامن سے ہی لپٹ گئی جس نے وجود کو خطرے میں ڈال دیا۔ یہ ایرانی انقلاب ہی تھا جس پر امریکی ردعمل نے تباہی و بربادی کی ایک طویل داستان مرتب کی۔

ایرانی عوام کو امریکی سامراج سے آزادی مل گئی لیکن کیا واقعی اسے مل گئی۔ ایرانی عوام کو اپنے تیل اور قدرتی وسائل پر تصرف ملا لیکن آج امریکا اور اس کے اتحادیوں کی حکمت عملی کے نتیجے میں تیل کی قیمت اتنی گر گئی ہے کہ ایران بدترین معاشی مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ ایران نے سائنس اور دوسرے شعبوں میں بہت ترقی کی ہے لیکن اس سے خطے کے عوام کو کیا ملا۔ رد انقلاب کی قوتوں نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے اس پورے خطے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔

انقلاب جب آتا ہے تو بہت کچھ دیتا ہے تو بہت کچھ سلب بھی کر لیتا ہے۔ چاہے یہ کمیونسٹ انقلاب ہو یا کوئی اور۔ شاید آج نہیں تو کل اگلے پچاس سالوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ناقابل یقین ترقی انسانی سوچ میں وہ تبدیلی لے آئے جس کے نتیجے میں وہ اپنے ہی جیسے انسان کو غلام بنانے اور اس کا استحصال کرنے سے باز آ جائے۔

بہرحال بات ہو رہی تھی جوہری ڈیل کی کہ اسے جوہری معاملات تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اس کے پیچھے بہت کچھ ہے۔ وہائٹ ہاؤس میں انسداد دہشت گردی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا کہ شیعہ سنی اختلافات صرف اسی صورت ختم ہوں گے جب بڑی طاقتیں بات چیت کریں گی یعنی اس کے بغیر یہ اختلافات ختم نہیں ہو سکتے کیونکہ بڑی طاقتوں جن میں امریکا بھی شامل ہے نے ہی شیعہ سنی اختلافات اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے قائم کیے ہیں۔

دوسری بات انھوں نے یہ کہی کہ مشرق وسطیٰ کے رہنما پراکسی جنگوں کو روک دیں یعنی بنیادی طور پر مشرق وسطیٰ کی طاقتیں ہی ہیں جو اپنے اپنے فرقوں کی سرپرستی کرکے فرقہ واریت کی آگ کو ہر گزرتے دن کے ساتھ پھیلاتی جا رہی ہیں۔ تیسری بات انھوں نے یہ کی کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو بعض ملکوں کی طرف سے اپنی عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے تا کہ دوسرے ملکوں میں اپنے اثر و رسوخ کے حلقے قائم کیے جائیں۔

ایران امریکا کے درمیان جوہری ڈیل کا مطلب یہ ہوگا مندرجہ بالا نکات کی بنیاد اور ان پر عملدرآمد کے روشن امکانات پیدا ہو جائیں گے اور یہی چیز اسرائیل کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ کیوں کہ اس ڈیل کے نتیجے میں اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں اہمیت میں غیر معمولی طور پر کمی آ جائے گی اور امریکا کا مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اسرائیل پر انحصار کم ہو جائے گا جب کہ عرب بادشاہتیں بھی اسرائیلی دباؤ سے باہر نکل آئیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران سعودی عرب دوستی میں بڑی رکاوٹ بھی دور ہو جائے گی۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ ایران سعودی عرب کے ساتھ ہر ممکن حد تک تعاون کے لیے تیار ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم واشنگٹن کے دورے پر جا رہے ہیں جہاں وہ کانگریس کے جوائنٹ سیشن سے 3 مارچ کو خطاب کرتے ہوئے اس ڈیل کو رکوانے کی کوشش کریں گے۔ اسرائیل کی ڈیل کے حوالے سے اپنے دیرینہ حلیف امریکا پر شدید تنقید اور دورہ امریکا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ڈیل پر کامیابی کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

بہت خون بہہ چکا۔ بہت جنگیں ہو چکیں۔ اب امن کو بھی موقعہ ملنا چاہیے۔ افغانستان پاکستان ناقابل یقین بہتر ہوتے ہوئے تعلقات اس بات کا ثبوت ہیں۔ مستقبل میں یہی کچھ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بھی ہونے والا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے دورہ امریکا میں کہا تھا کہ بہت جلد خطے میں تبدیلیوں کا دور آنے والا ہے۔ یہی وہ تبدیلیاں ہیں جن کی طرف ان کا اشارہ تھا جو اپنی تعبیر کی طرف بتدریج بڑھ رہی ہیں۔

٭… ایران امریکا جوہری ڈیل کے حوالے سے مارچ اپریل فیصلہ کن مہینے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔