رشتے، بس نام کے۔۔۔

سلمیٰ شکیل  پير 2 مارچ 2015
بوجھ بنے ناتے رشتہ داریوں پر داغ کے مترادف ہیں۔ فوٹو: فائل

بوجھ بنے ناتے رشتہ داریوں پر داغ کے مترادف ہیں۔ فوٹو: فائل

کسینے کیا خوب کہا ہے ’’زندگی کی خوب صورتی ہے ہی رشتوں کی بدولت۔۔۔ اور یہ رشتے قائم رہتے ہی تب ہیں، جب ہلکی سی مسکراہٹ اور ضرورت پڑنے پر ذرا سی معذرت سے ہر چھوٹی بڑی بات کو نظر انداز کر دیا جائے۔

فرد اپنے وجود کی ابتدا سے ہی بہت سے رشتوں سے جڑا ہوتا ہے مگر ان لاتعداد رشتوں میں اپنے شریک حیات سے رشتہ ایک ایسا لازوال تعلق ہے، جو اس رشتے کی ابتدا ہی سے فریقین کے درمیان محبت، احساس اور خوشی کے ایسے رنگ بکھیر دیتا ہے، جس سے انسان کی شخصیت یک سر تبدیل ہو جاتی ہے۔

زیادہ تر ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ شادی شدہ زندگی انسان کو تنہا رہنے کی نسبت ذہنی اور جسمانی اعتبار سے زیادہ خوش اور پرسکون رکھتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے میں ایک خاص عنصر رکھا ہے، جس کے تحت اس رشتے میں بندھنے کے بعد دوسروں کی نسبت وہ دونوں ایک دوسرے کی بات اور مسائل و معاملات زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔

اکثر مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کے ازدواجی تعلقات کا ماجرا کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جس کے لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات۔۔۔ لوگ اس بندھن میں بہت خوشی سے بندھتے ہیں۔۔۔ بہت سے رنگین خواب آنکھوں میں سجاکر زندگی کے اس نئے رخ کا سامنا کرتے ہیں۔ شادی کے لیے شریک حیات کا انتخاب کرتے ہی، وہ آپ کی سوچ کا محور بن جاتا ہے اور یوں زندگی کا ہر پہلو خوب صورت دکھائی دیتا ہے۔ شادی ہونے کے بعد کچھ عرصہ گزرتے ہی دونوں فریقین اس خوب صورت تصویر کے دوسرے رخ کے روبرو ہوتے ہیں، تو یہ چاندنی رات کو ایک بھیانک خواب کا روپ دے کر زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے۔

ابتدا میں ان مسائل کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ اپنے شریک حیات سے شکایتیں ہونے لگتی ہیں۔ غلط فہمیوں کو بنیاد بنا کر فریقین لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں۔۔۔ دھیرے دھیرے باہمی رنجشیں پیدا ہونے لگتی ہیں اور یوں اس رشتے میں بگاڑ کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی تمام تر مثبت باتوں کو بھلا کر اپنی پوری توجہ برائیوں پر مرکوز کر دیتے ہیں، پھر بدگمانی کا سلسلہ بڑھ کر بد سلوکی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ غلط فہمیوں کا سلسلہ چل نکلنے کے بعد بھی اصلاح کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اگر آپ چاہیں تو زندگی کو اس ڈگر پر لے جا سکتے ہیں جس کا خوب صورت خواب دیکھ کر آپ اس رشتے میں بندھے تھے۔ تو ایسا کیا کیا جائے، جو زندگی کام یاب اور خوش و خرم گزرے، آئیے ہم آپ کی کچھ مدد کیے دیتے ہیں۔

اپنی ذات میں کی گئی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ان مسائل کو آہستہ آہستہ ختم کر سکتی ہیں۔ اسی لیے یہ کہاوت مشہور ہے کہ ’’کسی کے بارے میں ستر گمان اچھے رکھو۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہماری منفی سوچ ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اپنے شریک حیات کے بارے میں مثبت سوچ رکھنے سے اور اپنے اندر صبر اور برداشت کے مادے کو پیدا کر کے ان مسائل کا بہت حد تک خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

میاں بیوی کا یہ رشتہ ایک دن، ایک مہینا یا ایک سال کی بات نہیں، بلکہ یہ تمام عمر کے ساتھ کا نام ہے اور اس ساتھ کو کام یابی سے نبھانے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون اور سمجھوتے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دل میں خلوص کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس رشتے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے میاں بیوی کو ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ خصوصاً یہ ذمے داری شوہر کی ہے کہ وہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ بیوی اپنے تمام پیاروں کو چھوڑ کر ایک نئے ماحول میں آئی ہے، اسے سمجھنے کا وقت دے اور ابتدا میں اس سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو کشادہ ذہن اور قلب کے ساتھ درگزر کرے۔

اس کی دل جوئی کرے، اسے محبت اور اپنے بھرپور ساتھ کا یقین دلائے، اسی طرح بیوی پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جلد از جلد اپنے نئے رشتوں اور نئے ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کرے اور ناخوش گوار باتوں کو بھی صبر اور تحمل سے سن کر عقل مندی سے ردعمل کا اظہار کرے، اپنے شوہرکو اپنی محبت اور ساتھ کا یقین دلائے اور اسے خوش رکھے جو کہ ایک لڑکی کا فرض ہے۔

ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال اور ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام کر کے اس رشتے کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے، ایک دوسرے کو تحائف دیں، اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ ساتھ ہی سیر و تفریح بھی ازدواج کے مزاج پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔

میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں اگر یہ غیر متوازن ہونے لگیں، تو زندگی کا سفر کٹھن ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ کی طرف سے دیے گئے اس رشتے کی صورت میں دیے گئے۔ اس اَنمول تحفے کی حفاظت میں اور بیوی دونوں کی ذمہ داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔