تھوڑا نہیں بھرپور وقت۔۔۔

ثمینہ فیاض  پير 2 مارچ 2015
آپ اپنے بچے کی سرگرمیوں سے کتنی باخبر ہیں؟۔ فوٹو: فائل

آپ اپنے بچے کی سرگرمیوں سے کتنی باخبر ہیں؟۔ فوٹو: فائل

تربیت صرف زبانی کلامی چیزیں بتانے کا نام نہیں، بلکہ بچے سب سے موثر تربیت والدین کے عمل سے حاصل کرتے ہیں۔

ضروری ہے کہ اپنے عمل سے جب بچوں کو غلط اور صحیح کی پہچان کرائی جائے، ہم خود اتنے سہل ہو گئے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہے۔ ہماری نسلیں اپنی اقدار اور ثقافت کھوتی جا رہی ہیں۔

آج کے مادّی دور میں جہاں روپے پیسے کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے، وہاں لوگ اپنے بچوں کو کسی اونچے درجے کے اسکول میں داخل کرا کے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اعلیٰ طبقوں میں تو ماں باپ اپنی سماجی سرگرمیوں میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس بچے کی تربیت کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں ہوتا اور یہ بات اس وقت سمجھ آتی ہے، جب وقت ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے کے پاس اعلیٰ ڈگری ہے، انگریزی پر عبور ہے، بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں۔ ان کی مراد ہم علاقہ اور ہم پلہ لوگوں سے ہوتی ہے۔

اب اس سے اچھی تربیت اور کیا ہوگی؟ لیکن اخلاقی روایات کا جنازہ تب ہی نکل جاتا ہے، جب چھوٹے چھوٹے بچوں کو بلا روک ٹوک پیسہ، موبائل، گاڑی، اور ٹی وی، انٹرنیٹ کی کھلی آزادی آجائے۔ یہ سب ضرورت ہیں نئے دور کی اور اپ انہیں ان برقی آلات سے دور کر کے دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں بنا سکتے، مگر ہر چیز کے منفی اور مثبت دو پہلو ہوتے ہیں اور اس کچی عمر میں ہر بری چیز اپنی جانب کھینچتی ہے۔ اس لیے انہیں قدم قدم پر بھرپور راہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ آپ کے بچے کا اخلاق وکردار کس درجے پر ہے؟ اس کی سوچ اور فکر کی سطح کیا ہے؟ اس کی بول چال، اور رنگ ڈھنگ کہیں بگاڑ کا شکار تو نہیں ہو رہے؟

متوسط طبقے کے لوگ جو اپنے بچوں کو بہت اچھے اسکولوں میں تعلیم نہیں دلوا سکتے، لیکن ایسے اسکولوں تک ضرور رسائی حاصل کرتے ہیں، جہاں انگریزی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، جس سے ان کے بچے انگریزی زبان کے رٹو توتے بن جاتے ہیں اور کسی حد تک انگریزی زبان کو سمجھنے اور بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس موقع پر والدین ان پر واری واری جاتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ بس یہی ان کا خواب تھا، گویا تعلیم کا اصل مقصد ہی حاصل ہو گیا۔ جب کہ اُن کی اپنی زبان میں اتنا ذخیرہ الفاظ بھی نہیں ہوتے کہ وہ ڈھنگ سے اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔ والدین یہ نہیں دیکھتے کہ نصاب کے مندرجات کیا ہیں اور وہ بچے کے ذہن میں کیا بٹھا رہے ہیں۔

بچوں کو وقت دینے کے بہ جائے ٹی وی کے سامنے بٹھا کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔ اگر ماں اور باپ دونوں ہی ملازمت پیشہ ہوں، تو وہ بچوں کی ذمہ داری ایسی ماسی یا آیا کے سپرد کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں جو بے چاری خود ہی اَن پڑھ اور کم تربیت یافتہ ہوتی ہے۔

آج بچوں کے کھلونوں کا جائزہ لیں تو اب گاڑی اور گیندے بلے کے بہ جائے کھلونا بندوق سب سے زیادہ مقبول ہے۔ بہت سی پستولیں ایسی ہوتی ہیں، جن کے چھَرّے لگنے سے کسی کی بینائی تک ضایع ہو سکتی ہے۔ اگر یہ کھلونا پستول نقصان دہ نہ بھی ہو تو، یہ علامت تشدد اور قتل کی ہے، یہ چیز نفسیاتی طور پر بچوں کو متشدد بناتی ہے، جب کہ ہمارے والدین اسے بے پروا نظر آتے ہیں۔

رہی بات بچوں کی اپنی تاریخ اور جنرل نالج سے متعلق تو اب تو یہ عالم ہے کہ بچوں کے والدین کی ہی معلومات اتنی ناقص ہوتی ہے، تو بچوں کا تویہ حال ہونا ہی تھا۔ جن بچوں کو اپنے ماضی اور حال کا درست علم نہ ہو، وہ کیوں کر مستقبل میں کسی مسئلے سے نبردآزما ہو سکیں گے۔ اُ ن کا ذہن کس طرح کھلے گا، وہ سوالات کس طرح کے اٹھائیں گے؟

تعلیم تو انسان کو اچھائی کی طرف راغب کرتی ہے، لیکن ہم نام نہاد تعلیم یافتہ لوگوں کو دیکھیں تو بڑی بڑی ڈگریاں لے کر اعلیٰ عہدوں پر تو فائز ہیں، لیکن انہیں بات کرنے کی تمیز اور بنیادی اخلاقی اقدار سے مکمل طور پر فارغ نظر آتے ہیں۔

والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کی اخلاقی تربیت کے لیے انہیں دینی ونیاوی لحاظ سے ایک مکمل انسان بنائیں۔ اس کے لیے ماؤں کو اپنے وقت کی قربانی دینی ہو گی۔ ساتھ ہی ان کی ہر قسم کی ضروری معلومات میں بھی کوئی رخنہ نہ پڑنے دیں۔ انٹرنیٹ پر بچوں کے لیے نامناسب ویب سائٹس پر چائلڈ لاک لگوادیں، ایسے ہی کیبل ٹی وی کے چینلز کو بھی لاک کیا جا سکتا ہے۔ ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو کریں اور سوالات کے ذریعے ان کے ذہنی سطح کو جانچیں۔ اچھی چیز کی حوصلہ افزائی کریں اور اصلاح طلب چیز کی اصلاح۔ انہیں نظم وضبط کا پابند بنائیں اور اخلاقیات کی عملی تربیت دیں، کبھی بھی اپنے بچے کی بے جا طرف داری نہ کریں۔

انہیں حکم نہ دیں، بلکہ یہی کام اگر ان سے یہ کہہ کر کروایں کہ آپ ہماری اس کام میں مدد کریں، تو وہ یہ کام خوشی سے کریں گے اگر بچے کے کام کو سراہیں اور اس کی تعریف کر دیں، تو نہ صرف اس کا اعتماد بڑھے گا، بلکہ اس کے رویے میںبھی مثبت تبدیلی آئے گی۔ بچوں کو اچھی متوازن صحت مند غذا دیں۔ غیر معیاری ٹوفیاں، چوکلیٹ اور سپاری وغیرہ جیسی چیزوں سے دور رکھیں۔ گھر کا ماحول خوش گوار رکھیں۔

یہ ان کی جسمانی اور ذہنی نشونما کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ان سے دوستانہ رویہ اختیار کریںکہ اپنی کوئی بھی پریشانی آپ کو بتانے سے ہچکچائیں گے نہیں۔ گھر سے باہر وہ کن دوستوں کے ساتھ اور کس وقت کہاں ہیں، یہ معلوم ہونا والدین کی ذمہ داری ہے، شروع سے ایسا ماحول پیدا کریں کہ وہ اپنی سرگرمیوں سے باخبر رکھنا اپنی ذمہ داری سمجھے۔ ان باتوں پر عمل کرکے آپ بھی اپنے بچوں کو ایک اچھی اولاد اور معاشرے کے لیے مفید شہری بنا سکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔