پھر اشک نہ تھم سکیں گے میرے

شہباز علی خان  پير 2 مارچ 2015
47 برس کی سانسوں میں ناصرکاظمی اپنی شاعری کی صورت میں وہ روشنیاں بکھیر گئے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ فوٹو: فائل

47 برس کی سانسوں میں ناصرکاظمی اپنی شاعری کی صورت میں وہ روشنیاں بکھیر گئے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ فوٹو: فائل

یہ حقیقت ہے کہ شاعر سے زیادہ مخلص اور نرم دل شخص کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ہے، وہ درد کے ہر موسم کو محسوس کرتا ہے، محبت کی تپش ہو یا عشق کی آگ، ہجر کے اندھیرے یا تنہائی کے ڈستے ہوئے ناگ، وہ ان تمام احساسات اور جذبات کو شاعری کے خوب صورت انداز میں بیان کرکے ہمیشہ کے لئے امر کردیتا ہے۔

ایسا ہی ایک تخلیق کار، قلمکار، شاعر 8 دسمبر 1925ء کو بھارتی پنجاب کے شہر امبالہ میں پیدا ہوئے، جس نے جب نوک قلم کو احساسات کے سیاہی دان میں ڈبو کر صفحہ پر رکھا توصدا آئی؛

روداد سفر نہ چھیڑنا ناصر
پھر اشک نہ تھم سکیں گے میرے

ناصر یوں اس کی یاد چلی ہاتھ تھام کے
میلے میں اس جہاں کے کھونے نہیں دیا

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لئے

نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

یاد کے بے نشان جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی

دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا

جدائیوں کا زخم درد زندگی نے بھر دیا
تجھے بھی نیند آگئی مجھے بھی صبر آگیا

دنیا انہیں ناصرکاظمی کے نام سے جانتی ہے، لیکن ان کا مکمل نام سید ناصر رضا کاظمی تھا۔ والد کا نام سید محمد سلطان کاظمی تھا۔ ناصر کاظمی نے اپنی تعلیم نیشنل ہائی اسکول پشاور، ڈی بی مڈل اسکول دک شائی، مسلم ہائی اسکول امبالہ، اسلامیہ کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہورسے مکمل کی۔

آپ نے 1940ء میں شاعری میں قدم رکھا، اور اختر شیرانی، میر انیس اور میر تقی میر سے بہت متاثر تھے۔ ان شاعروں کے رنگ ناصر کاظمی کی شاعری میں بہت گہرے دکھائی دیتے ہیں، انہوں نے حفیظ ہوشیار پوری کی رہنمائی میں غزل کا سفر شروع ۔

حفیظ ہوشیار پوری کی شاعری کی بنیاد ہی فطرت کے ارد گرد گھومتی تھی اور اِس کا واضح رنگ ناصر کاظمی کی شاعری میں ملتا ہے، جیسے درخت، پتے، آسمان، پت جھڑ، پانی اور بارش۔ 1947 ء میں وہ لاہور پاکستان آگئے۔ ایک میگزین اوراق نامہ ’’میں ایڈیٹر‘‘ اور پھر1952 ء میں ایک میگزین ’’ہمایوں‘‘ میں ایڈیٹر ان چیف کے کام کیا، انہوں نے بطور اسٹاف ایڈیٹر ریڈیو پاکستان میں بھی خدمات انجام دی۔

ناصر کاظمی کو شاعری نے کچھ اس طرح اپنے قابو میں رکھی کہ انہیں گردش سفر ہی رکھا، پاک ٹی ہائوس ہو یا مال روڈ کی سڑک وہ اپنے دوستوں کے ساتھ انہی جگہوں پر گھومتے رہتے۔ لوگ ان کی نظمیں اور شاعری سے ان کی شخصیت میں ایک ہی اداسی کا رنگ دیکھتے، جبکہ وہ حقیقی زندگی میں بہت زندہ دل بھی تھے اور رومانوی بھی۔ ان کے مزاح میں بھی ادب اور شائستگی کا پہلو ملتا تھا۔

اپنی وفات سے کچھ روز قبل انتظار حسین کو ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا ؛

’’ معلوم ہوتا ہے کہ میرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ تھا۔ شاعری دراصل میں نےشروع اِس لئے کی کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ جو بھی خوبصورت چیزیں باہر فطرت میں دیکھتا ہوں وہ میرے بس میں نہیں آتی ہیں، میری گرفت میں نہیں آتی ہیں اور نکل جاتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ لمحے، کچھ وقت جو مرجاتا ہے اور زندہ دوبارہ نہیں ہوسکتا ہے، وہ شاعری میں زندہ ہوسکتا ہے، اس لئے شاعری شروع کی۔ گھر کا ماحول بھی شعروشاعری کا تھا، گھر میں میر انیس پڑھا جاتا تھا، ماما میرے موسیقی کا شوق رکھتے تھے۔ جب میں نے پہلا شعر کہا تومجھے بہت خوشی ہوئی اور اگر مجھے اتنی خوشی کسی اور کام سے ہوتی تو میں شاعری نہ کرتا‘‘

ناصر کاظمی کو ایک بار فلمی دنیا کے چند دوست اسٹوڈیو لے گئے، اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ ان کا انٹرویو ڈائریکٹر حسن طارق کے آفس میں ہوا۔ شام کا وقت تھا، نشست رات گئے تک چلتی رہی مگر ان کے دوست باہر ہی رہے۔ اُن کے علاوہ اندر کوئی تیسرا نہیں تھا مگر جب وہ باہر آئے تو ایک ہی جملے کہا یہاں بات نہیں بنے گی چلو پاک ٹی ہاوس چلتے ہیں۔ اس کے بعد دوست پوچھتے ہی رہے مگر انہوں نے کوئی بات نہ کی۔ ناصر کاظمی کو سب صداکاروں نے گایا، غلام علی، مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، نصرت فتح علی خان، نور جہاں، نیرہ نور۔

غلام علی نے ایک بار کہا کہ؛

’’ وہ مجھ پر بہت مہربان تھے، لفظ کو اِس طرح ادا کرنا کہ اس کا مفہوم سامنے والوں تک پہنچ جائے مجھے ناصر کاظمی نے ہی سکھایا‘‘

2 مارچ 1972 کو انہوں نے وفات پائی۔ 47 برس کی سانسوں میں وہ اپنی شاعری کی صورت میں وہ روشنیاں بکھیر گئے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتی، کبھی کم نہیں ہوسکتی ہیں۔ وہ ہر دور کے شاعرتھے، اپنے سادہ اور آسان سے لہجے میں استعارہ اور چھوٹی بحر کا اِس طرح استعمال کیا کہ سب کے سامنے وہ الفاظ سچے مناظر بن جاتے تھے۔

آج بھی اتنے برس گزر جانے کے باوجود ان کی شاعری کے پھول، وقت اور موسموں سے بے نیاز اسی طرح ہر سو اپنی خوشبو پھیلا رہے ہیں۔ اُن کی زیادہ شاعری اُن کی وفات کے بعد ہی شائع ہوئی جو کہ ایک المیہ ہے۔ ناصر کاظمی کی تصانیف میں؛

برگ نائے ( 1952)
دیوانگی( 1972)
پہلی بارش(1975)
نشاط خواب (1977)
سر کی چھایا( 1981)
خشک چشمے کے کنارے(1982)
ناصر کاظمی کی ڈائری ۔ چند پریشان کاغذ(1995)
انتخاب میر(1989)
انتخاب نذیر(1990)
انتخاب والی دکن(1991)
انتخاب انشا(1991) شامل ہیں۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔