سرکار کچھ نہیں کرتی توعدالت متاثرین پولیس کیلیے دفترکھول لے، سپریم کورٹ

نمائندہ ایکسپریس  منگل 3 مارچ 2015
پنجاب حکومت پولیس کو راہ راست پر لانے کیلیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ فوٹو: فائل

پنجاب حکومت پولیس کو راہ راست پر لانے کیلیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے چکوال میں ایک خاتون کے قتل کی ناقص تفتیش کا معاملہ پولیس کی ناقص کارکردگی کے مقدمے کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے قرار دیا کہ پولیس کی نااہلی خود پنجاب حکومت کی کارکردگی کے سامنے سوالیہ نشان ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں فل بینچ نے سماعت منگل تک ملتوی کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل رزاق اے مرزا کو ہدایت کی کہ وہ بتائیں پنجاب حکومت پولیس کو راہ راست پر لانے کیلیے کیا اقداماتکر رہی ہے۔ حکومت کو خود احساس ہونا چاہیے، عدالت کے نوٹس پر پولیس مستعد ہو تو یہ بات انتہائی قابل تشویش ہے۔

جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے کہ اگر پنجاب حکومت سے کچھ نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ انجمن متاثرین پولیس کیلیے ایک دفترکھول لیتی ہے جہاں سپریم کورٹ کے17جج باری باری بیٹھ کر احکام جاری کریں گے، اگر ہم تفتیش میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں تو یہ خامیاں پولیس کو کیوں نظر نہیں آتیں، پولیس کا جو بھی کیس اٹھایا جاتا ہے اس میں خرابیاں ہی خرابیاں پائی جاتی ہیں، تشویش اس بات پر ہے کہ پولیس کی ایذا رسانیوں کا ازالہ کیسے ہوگا، پولیس کی جواب دہی کا کوئی طریقہ کار ہے ہی نہیں، حکومت نہیں چاہتی کہ بلدیاتی الیکشن ہو۔ عوام مارے مارے پھر رہے ہیں، کیا پنجاب حکومت کو کوئی احساس ہے یا نہیں؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رزاق اے مرزا نے کہا کہ جب تک پولیس کلچر تبدیل نہیں ہوگا پولیس کی کارکردگی بہتر نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ 10 فروری 2013 کو بلکسر انٹر چینج پر چکوال کی خاتون کی لاش ملی، تفتیشی افسر نے تمام ملزموں کو بے گناہ قرار دیا اور ان کی ضمانت ہوگئی جس پر مقتولہ کے بھائی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، عدالت نے شریک ملزمہ فرزانہ کی گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ تفتیشی افسر کے علاوہ کوئی دوسرا اہلکار پیش نہ ہو، ہر مقدمے میں سرکاری خرچ پر پولیس کی فوج ظفر موج کے پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔