ایک نظریہ جو کبھی ہوا کرتا تھا

سعد اللہ جان برق  بدھ 4 مارچ 2015
barq@email.com

[email protected]

داناؤں اور بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر کسی کو سب سے بڑی بددعا دینی ہو تو کہو کہ تمہارے گھر میں ’’بڑے‘‘ زیادہ پیدا کرے، پشتو میں یہ کہاوت یوں ہے کہ

د کور مشران دے زیات شہ
’’مشر‘‘ کو آپ سربراہ، لیڈر اور سردار کہہ سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب کسی گھر میں ایک کے بجائے مشر، لیڈر اور سربراہ ہی سربراہ ہوں تو اس کا حشر کیا ہو گا۔ پشتونوں کو بھی شاید کسی نے یہی بددعا دی ہو گی جو آج کل قبول ہو چکی ہے چنانچہ کسی گٹر میں بھی ہاتھ ڈالیے، کوئی کنکر اٹھایئے اور کسی بھی طرف نگاہ ڈالیے آپ کو دو چار سربراہ یا مشر آسانی سے مل جائیں گے اور مشران کی اس کثرت کا نتیجہ ہے کہ آج پشتونوں کا کوئی لیڈر نہیں ہے کیونکہ سب کے سب لیڈر ہیں۔

ایک عرصے سے ہم پشتونوں میں قیادت کے بحران بلکہ فقدان پر کچھ کہنا چاہ رہے ہیں لیکن اپنے کپڑے آپ اتارنا اور بیچ بازار ننگے کھڑا ہونا بڑے دل گردے کا کام ہے لیکن اب،

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

اس امید میں کافی وقت گزر گیا کہ شاید کسی کو احساس ہو جائے کہ صدیوں کی تاریخ اور کلچر رکھنے والی یہ قوم کس تیز رفتاری سے تباہی کے گڑھے میں گرتی جارہی ہے اور کتنی شدت سے ہر کوئی اپنے ہاتھوں میں کلہاڑی لیے اپنے پیروں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ وہ کلہاڑیاں جن کے دستے خود اسی جنگل یا پیڑ کے دیے ہوئے ہیں لیکن جہاں جہاں نظر پڑتی ہے دھواں ہی دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ دھواں جو خود اسی گھر کے لوگوں کی آنکھوں میں چبھ رہا ہے،

سترگے ئے ڑندے کڑے رالہ او گورہ
ڈیرکہ مے د کلی دے لوگے خو دے

یعنی دیکھو اس نے تو میری آنکھوں کو اندھا کر دیا، بھلے ہی میرے گھر کا میرے آنگن کا میرے گاؤں کا ہو لیکن دھواں تو دھواں ہی ہوتا ہے، جو آنکھوں کو اندھا کرنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں کرتا، لیکن کافی انتظار کے بعد بھی حالت وہی کی وہی ہے بلکہ روز بروز بگڑتی ہی چلی جارہی ہے۔

جہاں جہاں مجھے چہرہ دکھائی دیتا ہے
میری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

یہ احساس بھی روکے ہوئے تھا کہ اندھوں کے شہر میں آئینوں کی دکان کس امید پر کھولی جائے، بہروں کی محفل میں نغمے کس لیے گائے جائیں اور سرابوں میں کشتیاں کون اور کیسے چلائے، اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونک پائے گا۔

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

بنوں میں ایک شاعر نے اپنا مجموعہ کلام چھاپا تو اس کے ایک مخالف نے اس پر ایک چھوٹی سی کتاب لکھی اور اس میں بے چارے شاعر کے خوب خوب بخیے ادھیڑے اور اس کی شاعری کے لتے لیے۔ ایک تقریب میں دونوں موجود تھے۔ کسی تیسرے نے شاعر سے پوچھا، اس فلاں نے آپ کی کتاب پر بہت تنقید کی ہے۔

شاعر بولا ، وہ تنقید تو نہیں تنقیص ہے۔ اس پر وہ صاحب مڑے اور بولے ’’ناقص‘‘ چیزوں پر تنقیص ہی کی جا سکتی ہے تنقید نہیں۔ خیر وہ کہاوت اتنی ناشائستہ بھی نہیں کہ بالکل ہی ناقابل بیان ہو، کہاوت کے مطابق کتوں کی موت گیدڑوں کی عید ہوتی ہے، اسی بات کو عربی میں یوں کہا گیا ہے کہ ’’کبرنی موت الکبراء‘‘ مجھے بڑا بنایا ’’بڑوں‘‘ کی اموات نے، اور واقعی ، بڑے بڑے تناور درخت جب گر جاتے ہیں تو اس کے نیچے کی گھاس پھوس بھی سر اٹھانے لگتی ہے۔

گزشتہ انتخابات میں جب صوبہ خیبر پختونخوا کے نتائج نکلے تو لوگوں نے اسے تحریک انصاف، قومی وطن پارٹی اور عوامی محاذ وغیرہ کی مقبولیت جانا لیکن ایسی کوئی بات نہیں تھی، تحریک انصاف، قومی وطن پارٹی اور عوامی متحدہ محاذ نہ تو کوئی پارٹیاں تھیں نہ ان کے پاس کوئی خاص پروگرام تھا اور نہ ہی کوئی نظریہ بلکہ کچھ افراد کی ذاتی ٹولیاں تھیں اور تو اور عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کے پاس کیا تھا ؟ کوئی نظریہ کوئی پروگرام کچھ بھی نہ تھا اور نہ ہی اب ہے۔

صرف ایک ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ تھا اور پرانے گھسے پٹے چند سیاسی کاروباری تھے یہی وجہ تھی کہ سارے پاکستان میں لے دے کر اسے کامیابی ملی بھی تو صوبہ خیبر پختونخوا میں ۔ کیوں؟ اس لیے کہ خانہ خالی را دیو می گیرد… خالی گھر ’’آسیبوں‘‘ کا بسیرا ہوتا ہے۔ پیڑ کٹنے پر گھاس پھونس بھی سر اٹھا لیتی ہے اور بنجر کھیت میں اونٹ کھٹارے اگ آتے ہیں، پانی نہ ہو تو تیمم سے کام چلا لیا جاتا ہے، اسے عام طور پر ایک انتخاب کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور انتخابات میں ایسا ہوتا رہتا ہے کبھی ایک جیتا جیتا ہے کبھی دوسرا، کبھی تیسرا لیکن یہاں صرف انتخابی نتائج نہیں نکلے بلکہ پشتون قیادت کا جنازہ نکلا تھا۔

ایک بہت ہی طاقت ور تحریک مر گئی تھی۔ ایک نظریے کی موت ہوئی تھی اور اس کا ذمے دار کوئی اور نہیں باچا خان کی وراثت کے مدعی تھی جو خود کو بلا شرکت غیرے پشتون قیادت کے مدعی تھے۔ اتنے زیادہ کہ کسی اور کو پشتون قومیت کا نام لیتے ہوئے بھی پسند نہیں کرتے تھے، دوسرا کوئی اگر پشتونوں کے نام پر کچھ ہوتا تو یوں ردعمل کرتے تھے جیسے کسی نے ان کی ملکیت پر غلط دعویٰ کیا ہو یا قبضہ کرنے کی سعی کی ہو۔

ایک زمانے میں ایسا ضرور تھا جب باچا خان اور ان کے ساتھی چادر کی پلو میں باسی روٹی اور گڑ کی ڈلی یا پیاز کی گانٹھ باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ جایا کرتے تھے نہ کہ ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر اسلام آباد میں ڈیرہ نشین ہوتے یا بے شمار محافظوں دیواروں اور خار دار تاروں کی باڑوں میں پردہ نشین ہوتے۔ باچا خان کا تو نعرہ تھا کہ سوکھی ہو یا چکنی، سب کی برابر ہو گی، لیکن یہاں اہلیت تو نہیں تھی لیکن دعویٰ وہی تھا رسی جل گئی لیکن بل نہیں نکلا تھا، اونچے مقام سے پھسل کر پاتال نشین ہو گئے تھے لیکن اڑتے اب بھی آسمانوں میں تھے۔

انسان کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے پورے پاکستان کے لیڈروں کا بھی یہی سلسلہ ہے کہ ہر کامیابی کو اپنی جھولی میں ڈالا جائے اور اپنی ہر غلطی پر عیب اور ہر حماقت کو دوسروں کی سازش یا دشمنی کا نام دیا جائے، چنانچہ پشتون لیڈر شپ کے نسل در نسل مدعیوں نے بھی انتخابات کے ان نتائج کو دوسروں کی سازش اور پشتونوں کی نااہلی اور بے غیرتی کا نام دیا اور خود بدستور اونچے سنگھاسن پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے کہ کوئی بات نہیں پھر ہماری باری آجائے گی، جہاں تک ’’باری‘‘ آنے کا تعلق ہے تو وہ شاید آجائے کیونکہ باریاں تو آتی جاتی رہتی ہیں اور پاکستان میں باریاں چلنے کا سلسلہ ابتداء ہی سے چلا آرہا ہے لیکن کیا اے این پی ایک پارٹی کا نام تھا؟ کیا اس کی منزل صرف کرسی تھی؟ کیا چہرے بدلنے سے پشتونوں کی تقدیر بدل سکتی ہے؟

اگر ایسا ہے تو پھر کسی پارٹی کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے جو جیتا وہی سکندر، لیکن اگر اے این پی والے بھی یہی سوچ رکھتے ہیں کہ ان کی باری پھر آجائے گی تو اس ’’سوچ‘‘ پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، بلکہ جی ماتم کرنے کو بھی نہیں چاہتا لیکن میت سامنے ہو تو ماتم تو کرنا ہی پڑتا ہے بلکہ سب سے زیادہ ماتم ان کی عقلوں پر ہونا چاہیے کہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا کچھ کھو چکے ہیں۔

وہ صرف کرسی نہیں کھو چکے ہیں بلکہ ایک نظریہ ایک تحریک ایک تاریخ اور پشتون لیڈر شپ کھو چکے ہیں ،کرسی کا کیا ہے وہ تو پاکستان میں کسی بھی پارٹی کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔کوئی بھی دو چار کروڑ خرچ کر کے یہ متاع عزیز پا سکتا ہے لیکن یہاں تو پشتون لیڈر شپ کی موت واقع ہو چکی ہے اور موت کے بعد کوئی نہ کبھی زندہ ہوا ہے نہ ہو گا، بقول رحمان بابا

تیر ساعت پہ مثال مڑے دلحد دے
مڑی چادی جوندی کڑی پہ جڑا

گزرا ہوا وقت ایک مردہ لاش ہے اور لاشوں کو رونے دھونے سے کبھی زندہ نہیں کیا جا سکتا، ایک شخص کی بیوی مر گئی۔ ماتم اور پرسے وغیرہ کے دن گزر گئے تو ایک دن وہ گھر میں چولہے کے پاس بیٹھا سوچوں میں اپنی مرحومہ بیوی کو یاد کر رہا تھا کہ اس کے چھوٹے بیٹے نے کہا ۔۔۔ ابا کب سوئیں گے۔

اس پر باپ نے ایک لمبی سانس کھینچ کر کہا، بیٹا آرام تو تیری ماں کے ساتھ ہی چلا گیا، اب تو پڑے رہنا ہے کسی بھی وقت پڑ جائیں گے۔ کرسی کا کیا ہے کوئی نہ کوئی تو اس پر بیٹھے گا بیٹھا رہے گا اور وہ پشتون بھی ہو گا، اے این پی کی سوچ بھی اب اتنی محدود ہو گئی کہ بس کبھی ، کہیں،کیسی بھی ہو بس کرسی مل جائے، لیکن باچا خان اور خدائی خدمت گار تحریک کا نام اب بھی لیتے ہیں اور لیتے ہوئے ذرہ بھر بھی نہیں ہچکچاتے کہ اس کا نام کیا لینا ۔۔۔ اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے،

اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔