بھارت کے جواب میں

عبدالقادر حسن  بدھ 4 مارچ 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہمارے پرانے ساتھی ایڈیٹر مجیب شامی نے ایڈیٹروں کی کل پاکستان انجمن کی صدارت کا معرکا حسن و خوبی کے ساتھ سر کر لیا اور اس کا جشن بھی برپا کیا مہورت کی اس تقریب میں محترم وزیر اعظم جلوہ افروز ہوئے تھے۔

مدعوین میں مجھے شامل کیا گیا تھا لیکن اس موقعے پر مجھے نزلہ و زکام جسے فلو کہا جاتا ہے عروج پر تھا۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ چھینکوں اور شوں شوں کی مداخلت محفل کو یقیناً ناگوار گزرے گی۔ شامی کی تو مجھے فکر نہیں تھی لیکن ان کے مہمان خصوصی سے میری جان جاتی ہے ان کی جلاوطنی سے واپسی اور ایک بار پھر اقتدار کی جلوہ آرائی پر اب تو کئی مہینے گزر بھی چکے ہیں اس دوران نہ انھوں نے یاد کیا اور نہ میں بلا اجازت حاضری کی جسارت کر سکا اس لیے بھی میں نے سوچا کہ اگر مدتوں بعد کسی ذریعہ سے حاضری ہو بھی گئی اور وہ بھی نزلہ زکام کی حالت میں تو کہیں اس گستاخی میں بارہ پتھر نہ ہو جاؤں۔

یہ بارہ پتھر فوجی اصطلاح تھی جو انگریزوں کے زمانے میں ایک زبردست سزا کا نام تھی مگر زمانہ اب بھی کچھ زیادہ نہیں بدلا۔ اس پہلی تقریب کا دوبارہ سرسری سا ذکر اسی سلسلے کی ایک نئی تقریب سے ہوا ہے جو گزشتہ دن شامی صاحب نے ایک نئے ریستوران میں برپا کی۔ یہ شامی صاحب کے جشن صدارت کا ضمیمہ یا تتمہ نہیں تھا بس ایک تقریب ملاقات تھی جس میں چند معروف صحافی شریک ہوئے اور ہر ایک نے اپنے بارے میں یا اپنی پسند کے کسی بھی موضوع پر بات چیت کی۔

شامی نے میری شرکت کو یقینی بنایا کیونکہ میں بلاوجہ گھر میں دبک کر بیٹھ گیا ہوں۔ نہ کہیں آنا نہ جانا بس اخباروں اور قلم دوات کی آڑ میں گھر میں ہی چھپے رہنا۔ بہر کیف شامی نے مجھے باہر نکالا گھر والے بھی خوش ہوئے کہ اس کی فرمائشوں سے کچھ وقت کے لیے سکون ملا اور یہ بھی بلاوجہ شوقیہ بوڑھا ہونے کے شوق سے باز آگیا۔ بس گھٹنے والی تکلیف ہے اور میں جس کسی سے اس کا ذکر کرتا ہوں تو جواب ملتا ہے کہ ہر دوسرا پاکستانی اس کا شکار ہے اور گِٹے گوڈے کی شکایت کرتا ہے اس طرح میں اکیلا نہیں ہوں ع

یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

ہمارا پڑوسی بھارت ہمیں تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ شروع دن سے ہی اس کے متعصب ہندو لیڈروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ پاکستان ان کی موروثی سرزمین پر قائم ہوا ہے اور اس کا یہ قیام بلا جواز ہے۔ یہاں تک کہ روشن خیال پنڈت نہرو کی بیٹی بھارت کی وزیراعظم نے جو بھارت کی اس سیاسی رائل فیملی کی سربراہ تھی پہلے تو مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کیا اور پھر نعرہ لگایا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے لیکن یہ بدلہ پوری طرح چکایا نہ جا سکا ادھورا رہا کیونکہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے مغربی بنگال کے بھارتی بنگالیوں کے ساتھ مل جانے کے بجائے اپنی آزادانہ حیثیت پسند کی اور یوں بھارت کی خواہش ادھوری رہ گئی مگر پاکستان پھر بھی ٹوٹ گیا۔

ہم پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ اس وقت ہمارے پاکستان اور ہمارے مشرقی پاکستان میں کون کون حکمران اور بااثر تھا اور کس کس نے پاکستان کو توڑنے میں کیا کردار ادا کیا میر جعفر اور میر صادق کون تھا اور کون اس کے نتیجے میں باقی ماندہ پاکستان کا وزیراعظم بن گیا جو یہ بھی کہا کرتا تھا کہ ہمارے خاندان میں عمریں زیادہ نہیں ہیں اور میں حسین شہید سہروردی کی طرح انتظار نہیں کر سکتا۔ اگر آخری وقت میں بھارت فوجی مداخلت نہ کرتا تو صورت حال شاید مختلف ہوتی مگر وہ ایسے سنہری موقع کو ہاتھ سے کیوں جانے دیتا کیا وہ کوئی پاکستانی قسم کا غدار اور احمق تھا۔

گرم لوہے پر اس نے کاری ضرب لگائی۔ محب وطن پاکستانی آج تک اس ضرب کے زخم محسوس کر رہے ہیں اور کئی محب وطن پاکستانی بنگلہ دیش میں جانیں قربان کر رہے ہیں اور پھانسیاں پا رہے ہیں اسی پاکستان کی سلامتی کے جرم میں بھارت پاکستان پر مزید ضربیں لگانے کے لیے جدید ترین ہتھیار جمع کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ اس کا لہجہ بھی بدلتا جا رہا ہے اور اب تو بعض اوقات اس کا وزیراعظم بدتمیزی بھی کرتا ہے اور ہمارے وزیراعظم کو دھمکیاں بھی دے رہا ہے حالانکہ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا وزیراعظم ہے جس نے کمال جرات کے ساتھ بھارت سے دوستی کا اظہار کیا ہے اور پاکستانیوں کے دل جلانے والی باتیں بھی کی ہیں مگر بھارت اس پر بھی راضی نہیں ہے کیونکہ پاکستان ابھی تھوڑا بہت باقی ہے اور اس کا مکمل خاتمہ ہی بھارت کو راضی کر سکتا ہے وہ اسی خاتمے کے لیے ہتھیار جمع کر رہا ہے لیکن میں جو ایک پاکستانی ہوں بھارت کے ہتھیاروں سے ہرگز خوفزدہ نہیں ہوں۔

جنگ میں تباہی اگر ہماری ہو گی تو بھارت کی بھی ہو گی کہ ہمارے پاس بھی ایک تباہ کن ہتھیار موجود ہے اور بھارت کو اسی کا بے حد غصہ ہے۔ بھارت کے ایک وزیراعظم کو اپنی مسلمہ افواج پاکستان کی سرحدوں سے اس لیے واپس لے جانی پڑیں کہ اس کے کان میں ہمارے صدر نے کہہ دیا تھا کہ ہمارے پاس بھی ایک کھلونا موجود ہے جو بھارت کے حواس بے حال کر گیا اور وہ واپس گھر بھاگ گیا۔ اسے اس وقت کرکٹ ڈپلومیسی کا نام دیا گیا کیونکہ صدر ضیاء الحق کرکٹ دیکھنے کے بہانے بھارت گئے تھے۔

اصل سوال یہ ہے کہ بھارت جو ہتھیار جمع کر رہا ہے وہ چین کے لیے نہیں پاکستان کے لیے ہیں اس لیے کیا ہم پاکستانی بھارتی واضح عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مقابلہ ہمیں اپنی بقا کے لیے کرنا ہے۔ مجھے اپنے سیاستدانوں سے نہیں اپنی فوج اور اس کے سپہ سالاروں سے امیدیں ہیں۔

ہمارے سیاستدانوں نے تو ملک سے باہر اتنا کچھ جمع کر رکھا ہے کہ وہ وہاں بے غیرتی اور بے حمیتی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں مگر ہم کہاں جائیں گے۔ ہمیں تو اپنے وطن عزیز پاکستان میں ہی رہنا ہے اور ہر حال میں رہنا ہے۔ اللہ پر یقین ہے کہ وہ ہمارا حامی و ناصر ہے بشرطیکہ ہم اس کی طرف رجوع کرتے رہیں۔ بھارت کا سیکریٹری خارجہ ہمارے ہاں ہمارا مہمان ہے اور جو باتیں ہوں گی ان پر مزید کچھ بعد میں عرض کیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔