سینیٹ کے انتخابات اور شفافیت

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 4 مارچ 2015
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سینیٹ کے انتخابات اور ہارس ٹریڈنگ لازم و ملزوم ہیں۔ اس دفعہ پھرکروڑوں روپوں کے عوض صوبائی اسمبلی کے اراکین کے  ووٹوں کی خریداری کی خبریں ذرایع ابلاغ کا موضوع ہیں۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں تجوریوں کے منہ کھلنے کا بہت چرچا ہوا۔ پنجاب اور سندھ میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات نسبتاً کم لگے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے صورتحال کی گہرائی کو محسوس کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی۔ سیکرٹ ووٹنگ کے بجائے ہاتھ اٹھا کر ووٹ دینے کی تجویز آئی۔ اس دفعہ مسلم لیگ ن کی ہم نوا تحریک انصاف بنی۔ پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم نے آئین میں ترمیم کی مخالفت کا فیصلہ کیا۔ انسانی حقوق کی سرگرم رہنما عاصمہ جہانگیر نے مجوزہ ترمیم کو جمہوری روایات کے منافی قرار دیا اور کہا کہ اس ترمیم سے اراکینِ اسمبلی محض اپنی قیادت کی کٹھ پتلی بن جائیں گے۔

ایک اور قانون دان اور عدلیہ کی آزادی کے لیے قربانی دینے والے جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے مجوزہ ترمیم کو غیر جمہوری قرار دیا، اس طرح سینیٹ کے انتخابات سے قبل ووٹ دینے کے طریقہ کار میں تبدیلی کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔

ملک میں 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد سینیٹ یعنی ایوانِ بالا کا قیام عمل میں آیا۔ آئین بنانے والے مدبرین نے صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو اپنے اپنے صوبے کے سینیٹرز کے انتخابات کا اختیار دیا۔ صوبائی اسمبلی کے اراکین سیاسی جماعتوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ پہلے صوبائی اسمبلیوں میں بھی آزاد اراکین کی بھاری تعداد منتخب ہوتی تھی لیکن اب آزاد اراکین کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ کئی آزاد ارکان منتخب ہونے کے بعد اکثریتی جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں۔

اسی بناء پر اراکینِ اسمبلی اپنی جماعت کے فیصلوں کی پابندی کرتے ہیں مگر جب یہ اراکین سینیٹ کے انتخابات میں آزاد امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں تو پھر معاملہ ووٹوں کی خریداری سے جڑ جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں ،رہنماؤں اور ہمدردوں کو صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ جاری کرتی ہیں۔

ان جماعتوں کی قیادت انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے پارلیمانی بورڈ قائم کرتی ہے۔ سیاسی جماعت کا کوئی بھی کارکن پارلیمانی بورڈ کو درخواست دے سکتا ہے مگر اس درخواست کے ہمراہ ایک کراس چیک منسلک ہوتا ہے، یوں مخصوص رقم کی ادائیگی کی بناء پر وہ ٹکٹ لینے کا اہل ہوجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مشق تو محض قانونی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہوتی ہے، جو امیدوار انتخاب لڑنے کے لیے سنجیدہ ہوتے ہیں تو وہ اپنی قیادت کو علیحدہ سے خطیر رقم فراہم کرتے ہیں۔

اراکین کو اپنے انتخابی حلقوں میں بھی خاصی خطیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے،وہ جو رقم اپنے منتخب ہونے پر خرچ کرتے ہیں وہ اس سے کئی گنا زیادہ رقم واپس حاصل کرتے ہیں۔ رقم حاصل کرنے کے طریقوں میں سینیٹ کے انتخابات ہمیشہ اہم ہوتے ہیں۔  سینیٹر ہارس ٹریڈنگ سے منتخب ہوتے ہیں اور 6سال تک اس رقم سے زیادہ رقم حاصل کرنے کی جستجو میں مصروف رہتے ہیں۔ اب سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ ختم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے پورے نظام کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔

سینئر سیاسی کارکن خلیل قریشی کا کہنا ہے کہ سب ہی سیاسی جماعتوں میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ جاری کرتے وقت صرف کارکنوں کی متعلقہ سیاسی جماعت سے وابستگی، اپنے حلقے میں مقبولیت یا اہلیت سے زیادہ دیگر وجوہات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ سیاسی قیادت ان لوگوں کو ترجیح دیتی ہے جو بڑی برادریوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ بعض اوقات دولت مندگھرانوں کے افراد کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا جاتا ہے۔ خفیہ عسکری اور سول ایجنسیوں کے افسروں کی سفارش کو بھی اہمیت دی جاتی ہے، جب اس طرح کے لوگ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر کے منتخب ہوتے ہیں تو ان کی ترجیحات  مختلف ہوتی ہیں۔

سندھ میں سیاسی جماعتوں کے مضبوط ہونے کی بناء پر کسی رکن کے چمک سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں1988 سے 2014 تک ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے کامیابی حاصل کی۔ اس دوران سینیٹ کے انتخابات منعقد ہوئے تو ہارس ٹریڈنگ کے الزامات بہت کم لگے جیسا کہ اس دفعہ ہوا۔ مگر جب پیپلز پارٹی کے بجائے کسی دوسری جماعت کو اکثریت حاصل ہوئی تو سینیٹ کے انتخابات میں بازار گرم ہوا۔ ایسی ہی صورتحال ایم کیو ایم کے ساتھ ہوئی۔

ایم کیو ایم نے جب بھی شہری علاقوں سے اکثریت حاصل کی ان کے اراکین پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات نہیں لگے ۔ پنجاب میں ہر انتخاب میں یہ معاملہ ذرایع ابلاغ کی زینت بنا۔ بلوچستان اور خیبرپختون خواہ میں ہمیشہ سینیٹ کے انتخابات کے موقعے پر خوب بولیاں لگیں۔ ان سب کی وجہ سیاسی جماعتوں کا مضبوط نہ ہونا تھا۔ بلوچستان میں تعینات ایک صحافی کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری اور قبائلی نظام کی بناء پر اسمبلی میں آزاد اراکین خاصی تعداد میں منتخب ہوتے رہے،  ہمیشہ ووٹوں کی خریدوفروخت کا سوال سامنے آیا۔ یہی معاملہ خیبر پختون خواہ میں ہمیشہ سے رہا۔

خیبرپختون خواہ میں اس دفعہ ووٹوں کی فروخت کا معاملہ تحریکِ انصاف کے تنظیمی ڈھانچے کی کمزوری سے منسلک ہوا۔ پشاور کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف نے انتخابات میں کامیابی کے لیے ایسے افراد کو ٹکٹ دیے جو پارٹی ڈسپلن میں نہیں ہیں، اور ان نمایندوں کے ٹوٹنے کے خطرات زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ انصاف مسلم لیگ ن سے آئینی ترمیم کے لیے تعاون پر تیار ہے، بلکہ وہ اس مقصد کے لیے اسمبلیوں کا بائیکاٹ تک ختم کرسکتی ہے۔ اس طرح اراکین کے اسمبلیوں سے استعفیٰ بے وقعت ہوجائیں گے۔

ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل ووٹ کے طریقے میں تبدیلی میں نہیں ہے بلکہ ایک جدید پارٹی کے قیام میں مضمر ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور یورپ کی طرح ملک میں موجود سیاسی جماعتوں کے ڈھانچے میں بنیادی ترامیم ہونی چاہییں۔ ہر سیاسی جماعت میں نچلی سطح تک منتخب اداروں کے قیام ، تمام عہدوں پر انتخابات اور مقررہ مدت کے بعد پارٹی انتخابات کا انعقاد لازمی ہونا چاہیے۔ ہر سطح پر کارکنوں کے تربیت کے لیے سیاسی تعلیم کے ادارے کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہے۔

ہر سیاسی جماعت کو اپنے کارکنوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینا ضروری ہے تاکہ ہرکارکن میں سیاسی سوجھ بوجھ پیدا ہو ، وہ ایک وسیع وژن کا مالک ہو اور اس کا مطمع نظر محض سیاسی جماعت کی آڑ میں پیسے کمانا نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کی قیادت سے لے کر نچلی سطح تک کرپشن کی عدم برداشت کی پالیسی کا نفاذ بھی انتہائی ضروری ہے۔ سیاسی کارکنوں کو اپنے سیاسی کاموں کے ساتھ اپنے پیشے پر توجہ دینے اور اپنے اپنے کاروبارکو بہتر بنانے کے لیے قرضوں کی آسان اقساط پر فراہمی اور ان کی آمدنی پر سے ٹیکس ختم کرنے پر غورکرنا چاہیے۔

اس طرح صرف وہ لوگ سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کریں گے جو عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور سیاسی جماعت کو شفاف اور متحرک کر کے جمہوری نظام کو استحکام دینا چاہتے ہیں،انھیں مواقعے ملنے چاہییں۔ اس طرح ملک میں جاگیردارانہ سیاست سے ذہنی وابستگی رکھنے والے افراد کی حوصلہ شکنی ہوگی اور جو صوبائی اسمبلی کے اراکین منتخب ہونگے وہ اپنی سیاسی جماعت کے ذریعے دولت کمانے کے بجائے اس کو حقیقی خدمت کا ذریعہ سمجھیں گے۔

آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی فرحت اﷲ بابر سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں پیپلز پارٹی کے بعض اراکینِ اسمبلی کے ووٹ نہ پڑنے کی بناء پر انتخاب ہار گئے تھے۔

اب پیپلز پارٹی پھر تجربہ کر رہی ہے جو افسوسناک ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے ایک اہم سوال زرداری صاحب کے لیے ہے کہ وہ بلوچستان اورخیبرپختون خوا کی اسمبلی میں انتہائی کم اراکین کے باوجود کس بنیاد پر امیدوار کھڑے کر رہے ہیں؟ ان امیدواروں کی کامیابی شفاف عمل کوکمزور کردے گی اور جمہوری عمل پر سے اعتماد اٹھ جائے گا، لہٰذا اب فیصلہ سیاسی جماعتوں کوکرنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔