آئینی ترمیم پر پارٹیوں کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے

شاہد حمید  بدھ 4 مارچ 2015
اراکین اسمبلی کو 63A کی لٹکتی ہوئی تلوار کی وجہ سے سنبھل کر رہنا پڑ رہا ہے۔فوٹو: فائل

اراکین اسمبلی کو 63A کی لٹکتی ہوئی تلوار کی وجہ سے سنبھل کر رہنا پڑ رہا ہے۔فوٹو: فائل

پشاور: سینٹ کے انتخابات کی وجہ سے جہاں 22 ویں ترمیم کے معاملے پر سیاسی جماعتیں کھل کر آگئی ہیں کہ کون سی سیاسی جماعت کہاں کھڑی ہے وہیں پر سیاسی جماعتوں میں پائے جانے والے اختلافات بھی پوری طرح کھل کر سامنے آئے ہیں ،اراکین اسمبلی کو 63A کی لٹکتی ہوئی تلوار کی وجہ سے سنبھل کر رہنا پڑ رہا ہے۔

سینٹ کے حوالے سے جماعت اسلامی جو ویسے ہی تحریک انصاف کے سہارے چھلانگ لگاکر ایوان بالا پہنچنا چاہتی ہے اس کے پاس تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنے مرکزی امیر سراج الحق کو منتخب کرتے ہوئے پارلیمنٹ پہنچادے کیونکہ سراج الحق کے جماعت اسلامی کا مرکزی امیر منتخب ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کی رکنیت ان کے شایان شان نہیں اور یہ ضروری تھا کہ وہ پارلیمنٹ کا حصہ بنتے ہوئے اپنی پارٹی کی نمائندگی کریں۔ تاہم جماعت اسلامی کے لیے اس کے بعد دیر سے سراج الحق کی خالی ہونے والی صوبائی اسمبلی کی نشست کو دوبارہ جیتنا بھی کسی معرکہ سے کم نہیں ہوگا کیونکہ وہاں پر اے این پی سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر ہدایت اللہ گزشتہ عام انتخابات میں بھی کم مارجن سے ہارے تھے اور اگر انھیں وہاں پر پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کی سپورٹ مل گئی تو یہ نشست جماعت اسلامی کے ہاتھوں سے جا بھی سکتی ہے۔

تحریک انصاف نے سینٹ کے لیے اپنے امیدواروں کی تعداد کم کرتے ہوئے کشتی سے وزن تو کم کیا ہے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے جن امیدواروں کو سینٹ کے ٹکٹ دیئے گئے ہیں ان کے بارے میں پارٹی کے اندر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں کیونکہ مذکورہ امیدواروں کو ٹکٹوں کے اجراء کے بارے میں پارلیمانی پارٹی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا اور پھر جن امیدواروں کو ٹکٹوں کا اجراء کیا گیا ہے ان کے حوالے سے یہ بھی شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں کہ ’’آیا وہ تحریک انصا ف کا حصہ بھی ہیں یا نہیں؟‘‘، جس کے باعث پارٹی قائدین بھی اور خود یہ امیدوار بھی اپنی صفائیاں پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’وہ تحریک انصاف میں بھی شامل ہیں اور اس کا حصہ بھی ہیں‘‘۔

یقینی طور پر ایسا ہی ہوگا تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے پارٹی کے ورکر اور اراکین اسمبلی ایسے فیصلہ کی توقع نہیں کررہے تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ سینٹ کے لیے بھی پی ٹی آئی کی جانب سے صاحب ثروت افراد کی بجائے عام افراد کو ٹکٹ جاری کیے جائیں گے تاہم وہ یہ بھول گئے تھے کہ 2013 ء کے عام انتخابات کے موقع پر ٹکٹوں کی تقسیم باقاعدہ کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں کی گئی تھی کیونکہ کسی کے بھی وہم وگماں میں نہیں تھا کہ پی ٹی آئی میدان جیت کر لے جائے گی تاہم اب جبکہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں اقتدار میں ہے تو وہ سینٹ کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم منصوبہ بندی کے تحت کر رہی ہے جس میں وہ سارے معاملات کو مد نظر رکھے ہوئے ہے اور پی ٹی آئی کی قیادت کسی قسم کی کوئی بھول چوک کرنے کے موڈ میں نہیں ہے ۔ رہی بات پارٹی ورکروں کی تو سید شبلی فراز کو ٹکٹ جاری کرتے ہوئے ورکروں کو بھی خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عوامی جمہوری اتحاد تو چونکہ ایک ضلع بھی نہیں بلکہ ایک گھر اور خاندان کی پارٹی ہے اس لیے پارٹی والوں کی نظر بھی اپنے گھر پر ہی پڑنی تھی اسی لیے سینئر وزیر شہرام ترکئی کے والد لیاقت ترکئی کو ٹکٹ جاری کیا گیا تاہم ان کی کامیابی بھی پی ٹی آئی ہی کے مرہون منت ہوگی ۔ اپوزیشن پارٹیوں میں عوامی نیشنل پارٹی کی صورت حال یہ ہے کہ اسمبلی میں پانچ رکنی پارلیمانی پارٹی رکھنے والی اس جماعت کی خواہش تھی کہ اپوزیشن جماعتوں میں ایڈجسٹمنٹ کے تحت انھیں ٹیکنو کریٹ یا خواتین کی نشست میں سے کوئی ایک نشست مل جائے اور یہیں سے اے این پی میں پرانے حساب چکتا کرنے کا بھی سلسلہ شروع ہوا۔

پروافراسیاب خٹک گروپ کی کوششیں رہیں کہ ان کے ہاتھ ٹیکنو کریٹ نشست لگ جائے تاکہ افراسیاب خٹک آئندہ چھ سالوں کے لیے ایوان بالا کا حصہ بن جائیں کیونکہ پارٹی انتخابات میں بھی ان کا راستہ روکتے ہوئے انھیں مرکزی جنرل سیکرٹری نہیں بننے دیا گیا۔ تاہم اینٹی افراسیاب گروپ اس موقع پر بھی ان کی راہ کی دیوار بنا کھڑا ہے جس کی پوری کوشش ہے کہ اے این پی کے ہاتھ ٹیکنو کریٹ کی بجائے خاتون نشست لگے تاکہ افراسیاب خٹک سینٹ نہ پہنچ سکیں اور ان کی جگہ ستارہ ایاز ایوان بالا کے لیے منتخب ہوجائیں ۔

نشستیں تو صوبائی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی بھی پانچ ہی ہیں تاہم پیپلزپارٹی کی قیادت دو جنرل نشستوں پر کامیابی کے لیے پرامید ہے، جن پر پارٹی کے صوبائی صدر خانزادہ خان اور نور عالم خان امیدوار ہیں اور یہ معاملہ پیپلزپارٹی کے اندر وجہ تنازعہ بھی ہے کیونکہ دوسری جانب پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری انجینئر ہمایوں خان جو ٹیکنو کریٹ نشست کے امیدوار ہیں وہ اس بات پر غصہ میں ہیں کہ دو جنرل نشستوں پر امیدوار کھڑے کرنے کی بجائے ایک جنرل اور ایک ٹیکنو کریٹ نشست کے لیے فائٹ کی جاتی کیونکہ بہرکیف وہ پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری ہیں۔

اس صورت حال کے تناظر میں پیپلزپارٹی کے اندر بھی مسلہ بنا ہوا ہے اور یہ مسائل آگے تک جانے کا امکان ہے، قومی وطن پارٹی نے اگرچہ سینیٹرز فیملی کے عمار احمد خان اور وقار احمد خان کو اپنا تو لیا ہے تاہم اس وجہ سے خود ان کی اپنی پارٹی میں مشکلات ہیں کیونکہ ان کی پارٹی کے امیدوار عبدالمالک کو پہلے جنرل سے ٹیکنو کریٹ کی جانب دھکیلا گیا اور پھر بات اس سے بھی آگے چلی گئی جس کی وجہ سے پارٹی میں یہ تاثر ضرور پایا جاتا ہے کہ سینٹ انتخابات جیسے اہم موقع پر خود پارٹی کے اپنے وفاداروں کو چھوڑ کر باہر سے آنے والوں کو کیوں موقع دیاجا رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن)کا معاملہ یہ ہے کہ وجیہہ الزمان تو کھل کر باغی بنے ہوئے ہیں جنھیں شوکاز نوٹس بھی جاری ہو چکا ہے لیکن اس سے ہٹ کر بھی بعض ارکان کے تحفظات موجود ہیں جن کے سرے جاکر پارٹی کے صوبائی صدر پیر صابر شاہ کو سینٹ ٹکٹ پر نظر انداز کرنے سے جاملتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لیگی امیدوار صلاح الدین ترمذی کو کامیابی ملنا بھی معجزہ ہی ہوگا۔

جہاں تک بات ہے جمعیت علماء اسلام(ف)کی تو جے یو آئی شروع ہی سے غیر حقیقت پسندانہ انداز میں میدان میں اتری ، پارٹی کے صوبائی امیر اور جنرل سیکرٹری کو نظر انداز کردیاگیا،مولانا عطاء الرحمٰن کے ساتھ ایسے امیدواروں کو بھی ٹکٹ جاری کیے گئے کہ جن کے حوالے سے تحفظات موجود ہیں اور پھر ان باہر سے لائے جانے والے امیدواروں کو خوش کرنے کے لیے اپوزیشن میں شامل دیگر جماعتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جوشاید ہی ممکن ہو، وقتی طور پر تو یہ معاملہ دب گیا ہے مگر بعد میں اس کے اثرات ضرور ظاہر ہوں گے۔

سیاسی پارٹیوں کی اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں بلدیاتی انتخابات کے معاملہ پر نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے بڑی دھول اٹھے گی جس سے پورا منظر دھندلا جائے گا جس کے لیے تمام پارٹیوں کو ابھی سے تیاری کرنی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔