شعیب، ’اختر ہیں یا ایکٹر‘

جاہد احمد  بدھ 4 مارچ 2015
مسٹر شعیب! سیانے یوں ہی نہیں کہہ گئے کہ عزت کمانا سالوں کی کھیتی اور کھونا ایک پل کی مار ہے۔ فوٹو: فائل

مسٹر شعیب! سیانے یوں ہی نہیں کہہ گئے کہ عزت کمانا سالوں کی کھیتی اور کھونا ایک پل کی مار ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کرکٹ کا کوئی بھی شیدائی کیونکر شعیب اختر کا 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار کو چھوتا، ہوا میں سانپ کی طرح بل کھاتا وہ یارکر بھول سکتا ہے جس نے ایڈن گارڈن کلکتہ کے میدان میں قریباً ایک لاکھ کی تعداد میں شور مچاتے تماشائیوں کے سامنے پہلی ہی گیند پر سچن ٹنڈولکر کی وکٹ اکھاڑ کر بھارتی ٹیم بمعہ تماشائیوں کو سانپ سونگھا دیا تھا اور یوں بھارت سے ہارتی بازی چھین کر پاکستان کو بھارتی سرزمیں پر فتح سے ہمکنار کرا یا تھا۔

یہ شیعب اختر کے عروج کا آغاز تھا۔ اس دن دنیائے کرکٹ نے وسیم اکرم اور وقار یونس کے بعد ایک نئے عظیم پاکستانی تیز رفتار بالر کو کرکٹ کے افق پر اُبھرتے دیکھا۔ شعیب اختر راتوں رات پاکستان میں بھارت کو زیر کرنے والے کسی عظیم سورما کے طور پر چاہے جانے لگے تھے۔ ایک حقیقی ہیرو کی طرح۔

اِس کے بعد شعیب اختر نے کھیل چھوڑنے تک پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا اور کرکٹ کے ملکی و غیر ملکی دیوانوں نے اس پورے عرصہ میں بھارتیوں سمیت دنیا کے بڑے بڑے بلے بازوں کی ٹانگیں شعیب اختر کا سامنا کرتے ہوئے کانپتے بھی دیکھیں اور کھلاڑیوں کی لکھی کتب میں ان قصوں کا ذکر پڑھ کر آج بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ شعیب اختر نے کرکٹ کے کھیل کی تن و من سے بھرپور خدمت کی اور بدلے میں پاکستانی کرکٹ دیوانوں نے اس عالمی شہرت یافتہ اچھوتے بالر کو ہمیشہ بے حد محبت دی ہے۔

اس بات میں بھی شک نہیں کہ کیرئیر کے اختتامی مراحل میں شعیب اختر کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم انتظامیہ نے ناروا سلوکِ روا رکھا جس کا مستحق اس پائے کا کھلاڑی نہیں ہوسکتا تھا لیکن یہ بھی درست ہے کہ شعیب اختر وہ واحد کھلاڑی نہیں جس سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایسا سلوک برتا ہو۔ یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا خاصہ ہے کہ کسی بھی بڑے کھلاڑی کو شایانِ شان طریقے سے رخصت نہیں کیا گیا۔

پھر یہ رویہ من حیث القوم ہمارے خمیر میں بھی گندھا پڑا ہے جسے تبدیل کرنے میں وقت، درست حکمت عملی اور تعلیم کا فروغ درکار ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود شعیب اختر کا بھارتی سرزمیں پر کسی کامیڈی شو میں شرکت کرکے پاکستانی کھلاڑیوں، انتطامیہ اور کرکٹ بورڈ کے حالیہ و سابقہ اہلکاروں کی کامیڈی کے نام پر تضحیک کرنا بھی درست رویہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں انتطامی برائی موجود ہے، نظام بھی کمزور ہے، سفارش ہے، ذاتی پسند و نا پسند کے معاملات ہیں، مفاد پرستی جیسے عناصر بھی شامل ہے۔ بلاشبہ ان تمام مسائل پر ازحد بات کی جانی چاہیے، معنی خیز تنقید بھی ضروری ہے اور کُھل کر اظہارِ رائے کرنا بھی زندہ اور سوچنے سمجھنے والے معاشرے کی پہچان ہے لیکن لب کشائی کے بھی چند اُصول قائم و مروج ہیں جن کے تحت مقام، وقت اور وطن کی عزت کا ملحوظِ خاطر رکھا جانا ضروری ہے۔ شعیب اختر بھارتی سرزمیں پر اظہارِ رائے کی ان تمام حدود کو پھلانگتے دکھائی دیے جس کی اُمید پاکستان کے کرکٹ دیوانوں اور عوام کو یقیناً اِس عظیم گیند باز سے نہیں تھی۔

شعیب اختر زمانہ کھیل اور بعد از ریٹائرمنٹ ذاتی معاملات میں حدود و قیود توڑنے کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے ہیں لیکن کیونکہ یہ ذاتی نوعیت کے معاملات ہیں تو ان پر تنقید کسی کا حق نہیں لیکن بھارت میں ان کے حالیہ عمل نے پاکستانی عوام کو شدید غم و غصے میں مبتلا کردیا ہے۔ دنیا بھر کا تجربہ رکھنے والے شعیب اختر کو یہ بات سمجھنی چاہیے تھی کہ بھارتی پاکستان سے آئے ستاروں اور مہمانوں سے مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے پاکستان ہی کے خلاف ہرزہ سرائی کرانے میں ملکہ رکھتا ہے اور شاید یہی کچھ اِس کھلاڑی کے ساتھ بھی ہوگیا ہے۔ تو شعیب اختر جیسے افراد پر زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پاکستان میں اپنے ساتھ ہوئی کسی بھی قسم کی زیادتیوں کو اپنی کمزوری نہ بننے دیں اور کسی بھی صورت بھارتی میڈیا کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں کیونکہ دل کے پھوڑے پھوڑنے کا اس سے کہیں بہتر، پُرخلوص اور موثر پلیٹ فارم پاکستانی میڈیا شعیب اختر کو فراہم کرسکتا ہے۔ ایسے کسی مقصد کے لئے شعیب اختر کو کسی بھارتی کامیڈی شو کا رخ اختیار کرنے کی ضرورت ہر گز نہیں ہے۔

شعیب اختر کروڑوں پاکستانیوں اور ہزاروں اُبھرتے ہوئے کھلاڑیوں کے لیے Icon کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا اٹھایا ہوا ہر قدم ذمہ داری اور منہ سے نکلا ہر ہر لفظ دانش و حکمت کا منہ بولتا ثبوت ہونا چاہیے۔شعیب اختر بھی ایک پاکستانی کے طور پر ہماری قومی نفسیات اچھے سے جانتے ہوں گے کہ پاکستانی محبت بھی ٹوٹ کر کرتے ہیں اور ایک بار کوئی دل سے اتر جائے تو نفرت میں بھی کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔ سیانے یوں ہی نہیں کہہ گئے کہ عزت کمانا سالوں کی کھیتی اور کھونا ایک پل کی مار ہے۔

میں ابتداء سے شعیب اختر کا مداح رہا ہوں اور یقیناً شعیب اختر ایک عظیم پاکستانی گیند باز کی حیثیت سے یاد رکھے جانا چاہیں گے نہ کہ ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے ایک مرتبہ کامیڈی کے نام پر بھارتی سر زمیں پر پاکستان کے نام کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اِس لیے اگر ایک مداح شعیب اختر کے لیے یہ باتیں کرسکتا ہے تو اُن کو سوچنا چاہیے کہ جو اُن کے خلاف یہ نسبتاً نیوٹرل شائقین کرکٹ ہیں اُن کا اِس وقت کیا حال ہوگا۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شعیب درحقیقت اختر نہیں بلکہ ایکٹر ہیں۔ لیکن میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ جلد ہی قوم سے معافی مانگ کر اِس تاثر کو ختم کردیں گے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

جاہد احمد

جاہد احمد

جاہد احمد ایک لکھاری، ادیب و صحافی ہیں۔ اردو مجلے ماہنامہ "بیاض" کے شریک ایڈیٹربھی ہیں۔ ان سے رابطہ [email protected] پرکیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔