- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
پاکستان کرکٹ، نصف صدی کا قصہ
گو کہ عوامی ردعمل بہت مختلف ہے لیکن ناصر جمشید کو بلے بازی اور فیلڈنگ میں جدوجہد کرتے دیکھنا ہر اس شخص کے لیے تکلیف دہ امر ہونا چاہیے، جس نے انہیں 2013ء کے اوائل میں روایتی حریف بھارت کے خلاف دھواں دار سنچریاں بناتے دیکھا تھا۔
چنئی اور کولکتہ کے فاتح بلے باز کو مسلسل چار مقابلے میں واحد ہندسے کی نذر ہوتے دیکھنا کرکٹ کو سمجھنے اور اسے پسند کرنے والے کے لیے ایک خاصا پریشان کن منظر تھا، اُس پر طرّہ اُن کی ناقص فیلڈنگ کہ جس میں کیچ بھی چھُوٹے اور کئی رنز بھی اضافی دیے گئے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف اہم مقابلے میں ان کی جگہ برقرار نہیں رہے گی اور پاکستان بالآخر سرفراز احمد کو عالمی کپ میں پہلا مقابلہ کھلائے گا۔
فی الوقت تو یہ صرف اندازہ ہے، حقیقت تو مقابلے کے دن ہی معلوم ہوگی لیکن ناصر جمشید کو اس مضحکہ خیز مقام پر اور سرفراز احمد کو بوتلیں ڈھونے کا ’’فریضہ‘‘ انجام دیتے ہوئے دیکھنا قومی کرکٹ کے ایک تاریک پہلو کی عکاسی کررہا ہے کہ آخر ہمارے ہاں ایک اوسط درجے کا کھلاڑی کیوں آگے نہیں بڑھ پاتا اور انتہائی باصلاحیت کھلاڑی بھی ’بہت بے آبرو ہوکر‘ نکالا جاتا ہے؟
اگر ہم بیرون ملک دیکھیں تو ہمیں کئی مثالیں نظر آتی ہیں۔ جنوبی افریقہ کے پاکستانی نژاد عمران طاہر، جس کھلاڑی کو پاکستان نے ملک کی نمائندگی کے قابل نہیں سمجھا وہ جنوبی افریقہ ہجرت کر جاتا ہے اور بعد میں دنیا کی نمبر ایک ٹیم کا مستقل رکن بن جاتا ہے۔ وہ گیندیں جو پاکستان میں تو شاید بے ضرر سی ہوتیں، اب اس قابل ہوگئی ہیں کہ جنوبی افریقہ کو سہارا دے رہی ہیں۔ پھر فی زمانہ دنیا کے بہترین بلے باز ہاشم آملہ کو دیکھیں۔ اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ناکامی کے بعد یہ تک کہا گیا کہ ہاشم کی تکنیک بہت خراب ہے اور وہ زیادہ عرصے نہیں چل پائیں گے لیکن اب وہ تمام طرز کی کرکٹ کے بہترین بلے بازوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر آسٹریلیا کا اوسط درجے کا آل راؤنڈ اسٹیون اسمتھ دنیا کی بہترین ٹیم کی قیادت تک پہنچ جاتا ہے، اسٹورٹ براڈ کا کیریئر چھ گیندوں پر چھ چھکے کھانے کے باوجود ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ مزید بہتر باؤلر کی حیثیت سے اپنا مقام بناتا ہے، مچل جانسن بدترین کارکردگی کے مظاہروں کے بعد دنیا کا خطرناک ترین گیند باز بنتا ہے لیکن پاکستان میں عمر اکمل جیسا باصلاحیت بلے باز ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچھے کا سفر کررہا ہے، ناصر جمشید بہترین آغاز کے بعد اب ناکامیوں کے گھیرے میں ہے اور یہ فہرست بہت طویل ہے، جسے چھیڑنا اس وقت مقصود نہیں۔
اگر نوجوانوں سے ہٹ کر دیکھیں تو سعید اجمل کے باؤلنگ ایکشن پر کئی سالوں سے اعتراض اٹھ رہے تھے، لیکن ہم نے اس وقت تک ان کے ایکشن کو نہیں جانچا، جب تک کہ ان پر پابندی عائد نہیں ہوئی جبکہ ویسٹ انڈیز کے اسپنر سنیل نرائن کا باؤلنگ ایک مرتبہ بھی بین الاقوامی کرکٹ میں رپورٹ نہیں ہوا لیکن وہ اس پر محنت کررہے ہیں اور اسی وقت واپس آنا چاہتے ہیں جب وہ خود مطمئن ہوں۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جدید کرکٹ کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھا ہی نہیں۔ یہ اب کھیل سے بڑھ کر ایک سائنس بن چکا ہے اور وہ بھی اُن کے لیے جو ہر وقت اپنے دماغ کو حاضر رکھیں۔ پھر کھلاڑیوں کو متحرک رکھنے اور انہیں بھرپور تحریک دینے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں تو 18 کروڑ ناقدین ہیں، جن کا کام اپنی ’’ماہرانہ رائے‘‘ ٹھونسنا اور کھلاڑیوں کی ٹانگیں کھینچنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
بہرحال، یہ ایک طویل داستان ہے، اہم عہدوں پر نااہل اور غائب دماغ افسران کی موجودگی کی، کھلاڑیوں میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے مسائل کو اچھی طرح نہ سمجھ پانے کی اور سب سے بڑھ کر دقیانوسی طریقوں سے جدید کرکٹ میں فاتح بننے کی سعی لاحاصل کی اور ’یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں’۔ دعا یہ ہے کہ یہ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ہم اسی لکیر کو نہ پیٹ رہے ہوں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔