اردو کا مطالعہ دماغی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتا ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  بدھ 4 مارچ 2015
اردو اشعار پڑھنے سے ایک طرف روحانی سکون ملتا ہے، تحقیق ڈیزائن : اویس خان

اردو اشعار پڑھنے سے ایک طرف روحانی سکون ملتا ہے، تحقیق ڈیزائن : اویس خان

نئی دلی: یوں تو زبانیں سیکھنا نہ صرف علم میں اضافے کا باعث بنتا ہے بلکہ انسان کی ذہنی صلاحتیوں کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے تاہم کچھ زبانوں میں یہ قدرتی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ دماغ کی افزائش کو تیزی سے بڑھانے میں مدد گارہوتی ہیں ان میں اردو کو بھی یہ مقام حاصل ہے اس لیے بھارت میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اردو اشعار پڑھنے سے ایک طرف روحانی سکون ملتا ہے تو دوسری طرف یہ دماغی صلاحیتوں کو تیزی سے پروان چڑھانے میں مدد گار ہوتی ہے۔

لکھنو میں سینٹر فار بائیو میڈیکل ریسرچ کے نیورو سائنس کے شعبہ میں کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اردوشاعری بالخصوص ہم آواز ردیف اور قافیہ رکھنے والے اشعار دماغ کے مرکزی فنکشنز کو کنٹرول کرنے والے حصوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اردو شاعری اور اچھی نثر کے مطالعہ سے  فیصلہ کرنے کی صلاحیت، اچھے اور برے میں تمیز، جذباتی عناصر، اسٹریس سے جنگ، معلومات کے حصول اور مشاہدہ کرنے کی صلاحیتوں کی تیزی سے افزائش ہوتی ہے جب کہ اس کی بدولت یادداشت اور ذہنی صلاحیتوں میں کمی کا عمل سست ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ یہ معذور بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت کوبڑھانے میں بھی مددگار ہوتی ہے۔

ریسرچ کے بانی اتام کمار کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج مخصوص مضمون کے مطالعہ کے دوران ذہن کے پردے پر بننے والے نقشوں کی بنیاد پر حاصل کیے گئے ہیں، ان نقشوں کو’’ فنکشنل میگنیٹک ریسونینس امیجنگ ‘‘ تکنیک استعمال کرتے ہوئے ترتیب دیا گیا اور یہ ایسی تکنیک ہے جو دنیا بھر میں ذہن کی ساخت اور اس کے کاموں کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

اتام کمار کا کہنا تھا کہ اس عمل کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ زبان دماغ پر مخصوص پیٹرن تخلیق کرتی ہے جن کی دماغ میں موجود نیورون سے تعلق پیدا کرکے نشان دہی کی جاتی ہے جب کہ تمام زبان کا بنیادی پیٹرن ایک ہی جیسا ہوتا ہے لیکن جب انتہائی باریک بینی سے یعنی مائیکرو لیول پر مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس میں زبان کا اسکرپٹ اور بولنے کا لہجہ یا فونیٹک زبانوں کی خصوصیات کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے اس کے علاوہ زبانوں کی خصوصیات کو آرتھو گرافی یعنی نظر آنے والے حروف (گرافیم) اور لکھے گئے لفظوں کو آواز میں تبدیل کرنے کے عمل (فونیم) کے درمیان فرق کر کے بھی جانچا جاتا ہے۔

تحقیق کے دوران اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے زبانوں کو آسانی سے سمجھنے والی (ٹرانسپیرنٹ) اور مشکل سے سمجھ آنے والی (ڈیپ) میں تقسیم کیا گیا جس کے مطابق ہندی اور جرمن ٹرانسپیرنٹ جب کہ انگلش اور فرنچ ڈیپ زبان قرار پائی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو ’’ڈیپسٹ‘‘ یعنی سب سے زیادہ گہری زبان قراردی گئی کیوں کہ اس میں دیگر دو زبانوں کے مقابلے میں 2 اہم خصوصیات اس کے حروف کے لکھنے کا پیچیدہ طریقہ اور دوسرا لکھنے کی سمت اسے ڈیپیسٹ بناتی ہیں۔

اتام کمار نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی اس گہرائی کی بدولت اس کو پڑھنے والے کے دماغ کے غالب اوپری اور درمیانی حصے تیزی سے سرگرم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے دماغ کے علم و آگہی رکھنے والے اہم ترین اجزا تیزی سے حرکت کرتے ہیں اور خاص طور پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت سب سے اہم ہے جو اچھے اور برے کرنے کی صلاحیت اور کسی بھی عمل کے نتائج کا ادراک پیدا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جولوگ کئی زبانوں کے ماہر ہوتے ہیں ان کی یادداشت بڑھاپے میں بھی تیزی سے کام کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔