ڈِنرایٹ نائن- بلیک ٹائی!

تشنہ بریلوی  جمعرات 5 مارچ 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

یہ ایک ذرا سی چمکیلی دھجی جسے ٹائی یا کراواٹ کہتے ہیں کیا غضب ڈھاتی ہے۔ معمولی انسان کو اہم اور بااثر لوگوں کی صف میں کھڑا کر دیتی ہے۔ دیہاتی کو شہر ی بابو بنا دیتی ہے اور جاہل گنوار امیدوار کو داماد میں تبدیل کر دیتی ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ بے ہنر بیروزگار کو روزگار دلاتی ہے۔ اگر شوہر کی زندگی آسان بناتی ہے تو نصف بہتر کو بھی کچھ سہولتیں فراہم کرتی ہے۔

اور کسی بھی ماتحت کے لیے اپنے ’’باس‘‘ کو خوش کرنے کا نہایت عمدہ طریقہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں پر فدویانہ مسکراہٹ سجا کر اسے توصیفی نظر سے دیکھے اور کہے ’’سر کیا شاندار ٹائی ہے آپ کی۔ آپ ہی کے لیے بنی ہے۔‘‘ یہ وار کبھی خالی نہیں جاتا۔ باس صاحب کی نظر میں تمہارا درجہ بلند ہو جائے گا اور شاید جلد ہی تمہارا رتبہ بھی۔ لیکن اگر صاحب بہادر تمہیں مشکوک نظر سے دیکھ کر حقارت سے فرمائے ’’مسٹر، میرے گلے میں ٹائی نہیں ہے۔‘‘ تو بھی ہوشیار ماتحت کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔

وہ اپنی مسکراہٹ میں مزید شہد ملا کر اور سر جھکا کر یوں عرض گزار ہو گا ’’حضور صحیح فرما رہے ہیں مگر میرا اشارہ اس چیز کی طرف تھا جو میری جیب میں ہے اور جو یہ حقیر از راہِ عقیدت آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہے۔‘‘ پھر فوراً ہی جیب سے ایک چمچماتی ہوئی ریشمی ٹائی نکال کر نہایت ادب سے حیرت زدہ افسر بالا کو پیش کرے گا اور اس کا دل جیت لے گا۔

مزید برآں اگر آپ کا ’’باس‘‘ دیسی ٹائپ ہے اور اچکن میں مگن رہتا ہے تو بھی آپ مایوس نہ ہوں۔ ٹائی یہاں بھی کام آئے گی۔ سیدھے سادے شیر وانی پوش افسر کو بتایا جائے کہ ماضی میں ایک نہایت خوش کلام شاعر گزرے ہیں۔ بہزاد لکھنوی جو اسی طرح اچکن پر گزارا کرتے تھے لیکن ان کے گلے میں ٹائی ہوتی تھی۔

’’اچکن پر ٹائی؟‘‘ آپ کا باس حیرت سے پوچھے گا۔

’’جی ہاں اچکن پر ٹائی!‘‘ اور بہزاد صاحب اس طلسمی ٹائی کو جھٹکا دے کر شاندار اشعار برآمد کرتے تھے جنھیں وہ خود ( اور بعد میں نیرہ نور) لحنِ داؤدی میں پیش کرتے۔ سننے والوں کو مست و بے خود کرتے تھے ۔ شاید یہ ٹائی ان کو بریلوی بزرگ نے عطا فرمائی تھی جن کے بہزاد صاحب مرید تھے اور اسی نگاہِ کرم کی وجہ سے بہزاد صاحب اتنے مترنم شاعر بن گئے تھے۔ گمان غالب ہے کہ اگلے روز وہ اچکن باس ٹائی پر پہننا شروع کر دے گا۔ اچکن کے اوپر نہیں تو اندر۔

ٹائی اگر مردوں کی زندگی آسان بناتی ہے تو یہ عورتوں کو بھی موقع فراہم کرتی ہے اپنی حاکمیت جتانے اور بھری محفل میں شوہر کو گھسیٹنے کا۔ یہاں لیڈی ایسٹر Lady Astar کا ذکر مناسب ہے۔ وہ دبنگ خاتون (Femme Fatale) برطانیہ کی پہلی خاتون ممبر پارلیمنٹ تھی۔ ہر ایک سے جھگڑا کرنا اس کا معمول۔ ایک دن اس نے نوجوان لیفٹننٹ ونسٹن چرچل پر کڑی تنقید شروع کر دی اور آخر میں کہا ’’ونی۔ اگر میں تمہاری بیوی ہوتی تو ایک صبح تمہاری چائے کی پیالی میں زہر گھول دیتی۔‘‘ حاضر جواب چرچل فوراً بولا۔ ’’میں وہ چائے ضرور پیتا۔‘‘

لیکن لیڈی ایسٹر اپنے سر پھرے شوہر سے نجات پانے کے لیے ایک اور طریقہ بھی اختیار کر سکتی تھی اور وہ بھی بڑے ڈرامائی انداز سے۔ کسی دن جب چرچل کرسی پر بیٹھا اونگھ رہا ہوتا تو لیڈی ایسٹر اس کی ٹائی کی ناٹ کو دانت کٹکٹا کراس طرح کستی کہ وہ Ascot Knot خود بخود Astor Knot بن کر بڑے پراسرار طور پر چرچل کا کام تمام کر دیتی۔

بیکر اسٹریٹ کا مشہور سراغ رساں شرلک ہومز اس کو A Case of the Astor knot کے نام سے پکارتا۔اب ذرا بلیک ٹائی Black Tie کے کرشموں کا بھی ذکر ہو جائے۔ سلطنتِ برطانیہ کے گورے حکمراں یعنی پکّا صاحب Pucca Sahibs اس کو بہت پسند کرتے تھے اور بلیک ٹائی بھی کرنل بلمپ Col Blimp کے پلس فور Plus four کی طرح آقاؤں کے لباس کا حصہ تھی۔ انگریز بہادر تو رخصت ہوا لیکن اب بھی کچھ مغرب پرست حلقوں میں اسے decorum کا لازمی جز سمجھا جاتا ہے۔ ایک بڑا صاحب کسی طور آپ سے خوش ہو جاتا ہے اور نوازنا چاہتا ہے۔

لہذا سلطنت برطانیہ کا وہ آخری نمایندہ مرحمت خسروانہ سے کام لیے ہوئے آپ کو ڈنر پر مدعو کرتا ہے اور بالائی ہونٹ کو جنبش دیے بغیر فرماتا ہے “Dinner at nine-black Tie”  اس دعوتِ خسروانہ پر آپ خوش بھی ہوتے ہیں لیکن حیران بھی۔ بلیک ٹائی سے صاحب بہادر کی کیا مراد ہے؟ بلیک ٹائی کا ڈنر سے کیا رشتہ ہو سکتا ہے؟ بہر حال آپ ٹھیک نو بجے شب لاٹ صاحب کے دولت کدے پر پہنچ جاتے ہیں اور آپ کی گردن میں ڈیڑھ فٹ لمبی ایک چمکتی ہوئی سیاہ ٹائی کلاک کے پنڈولم کا نمونہ پیش کر رہی ہوتی ہے۔ آپ کو دیکھ کر میزبان عالی شان پتھر کا مجسمہ بن جاتا ہے۔

اس لیے کہ آپ کی یہ ’’جسارت‘‘ تو قیامت سے کم نہیں۔ ایسے موقعے پر اگر غضب ناک میزبان آپ کو دھکّے دے کر باہر نہ نکلوا دے تو آپ خدا کا شکر ضرور ادا کریں اس لیے کہ جب صاحب بہادر نے ’’بلیک ٹائی‘‘ کہا تھا تو مراد وہ لمبی دھجّی نہیں تھی جو سوپ میں غوطے کھا سکتی ہے بلکہ بو ٹائی Bow Tie جو تتلی یا ہٹلر کی مونچھ کی طرح ہوتی ہے اور جو Tuxedoجیکٹ، دھاری دار پتلون اور چھ انچ چوڑے ’’کمربند‘‘ کے ساتھ ڈنر سوٹ پر جچتی ہے۔ اور اس لباس کے بغیر کسی لاٹ صاحب کے ڈنر میں شرکت کرنا ناقابلِ معافی ’’مجلسی جرم‘‘ ہے (جو ’’مجلسی تبسم‘‘ کو ختم کر دیتا ہے) اور پھر صاحب بہادر کا دل جیتنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ بوٹائی اور ڈنر جیکٹ کے ساتھ ٹارٹن کلٹ Tartan Kilt ‘ یعنی ولایتی تہمد‘ سفید موزے اور چمکتے ہوئے فُل بوٹ پہن کر اس طرح جلوہ گر ہوں کہ آپ کے شکم پر اسپوران ڈبہSporran بھی لٹک رہا ہو۔

ایک تیسری صورت یہ بھی ہے کہ آپ لاٹ صاحب کے الفاظ کو بالکل لغوی معنی دیں۔ انھوں نے کہا تھا ’’ڈنر ایٹ نائن۔ بلیک ٹائی‘‘ یعنی آپ ٹھیک نو بجے کوٹ پتلون وغیرہ کی فضولیات سے آزاد صرف اور صرف بلیک بوٹائی لگائے ننگ دھڑنگ وہاں پہنچ جائیں۔

بڑے صاحب کا منہ کھلا کا کھلا رہ جائے گا۔ وہ سانس روکے آپ کو گھوریں گے اور پھر ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا فوارہ رواں ہو جائے گا۔ وہ آپ سے روتے ہوئے لپٹ جائیں گے کیونکہ وہ آپ کے جسم پر ایک پیدائشی نشان دیکھ کر اپنے گمشدہ بھائی کو پہچان چکے ہوں گے۔اور اگر آپ مغربی لباس کی اس پراسرار دھجی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ مارشل ٹیٹو سے لے کر بندرگاہ ڈوبروو نک Dubronik کے بھکاریوں تک جنوبی یورپ کے خوبصورت ملک ’’کروشیا‘‘ کے تمام باشندوں کا شکریہ ادا کریں چونکہ گلے کا یہ ریشمی زیور اسی ملک کی ایجاد ہے اور وہاں اسے ’’خرافات‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

فرانس کے سلطانِ اعظم لوئی چہاردہم Louis XIV کے زمانے میں ایک کروشیائی سپاہی ٹائی پہنے ان کے دربار میں آیا تھا۔ شہنشاہ کو یہ دھجّی بہت پسند آئی اور اس طرح اسے فرانس میں مقبولیت حاصل ہوئی اور پھر مشرق و مغرب میں۔ اور تب سے کروشیا والوں نے ساری دنیا کو گردن سے دبوچا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔