ایسا کیا کمال کردیا؟

محمد عمیر دبیر  جمعرات 5 مارچ 2015
جب آفریدی سے زیادہ بہتر کھلاڑیوں کو موقع نہیں دیا جارہا تو آفریدی کا ٹیم میں شامل ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ فوٹو اے ایف پی

جب آفریدی سے زیادہ بہتر کھلاڑیوں کو موقع نہیں دیا جارہا تو آفریدی کا ٹیم میں شامل ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ فوٹو اے ایف پی

بلاآخر وہ دن آہی گیا جب لالہ (شاہد آفریدی) نے اپنے کیریئر کے 8 ہزار رنز مکمل کرلئے، جس کے بعد وہ دنیائے کرکٹ کے ستائیسوے اور پاکستان کے چوتھے کھلاڑی بن گئے۔ آفریدی نے یہ رنز 395 میچز کھیل کر 6 سنچریوں اور 39 نصف سنچریوں کی مدد سے بنائے، جس میں وہ تیز ترین سینچری بھی شامل تھی جو اُنہوں نے اپنے پہلے ہی میچ میں داغی تھی اور یہی وہ سینچری تھی جس نے آفریدی کو زمین سے آسمان پر پہنچایا تھا۔ 

خیر دیر آید درست آید، لیکن اگر آفریدی سلفیاں لینے کے بجائے ورلڈکپ میچز میں بہتر کارکردگی دکھانے پر توجہ دیتے تو یہ سنگ میل شاید پہلے ہی میچ میں مکمل ہوجاتا۔ ویسے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آفریدی کو چوتھا پاکستان بننے پر لوگ مبارکباد پیش کرتے لیکن معاملہ کچھ اُلٹا ہوگیا ۔۔۔۔۔ وجہ شاید یہ انٹرنیٹ ہی ہے جس نے عوام کو بتایا کہ دنیا میں جن 27 کھلاڑیوں نے 8000 رنز کا سنگ میل عبور کیا ہے اُن میں آفریدی کا اسٹرائیک ریٹ تو سب سے زیادہ 116.86 ہے مگر افسوس یہ کہ اُن کا اوسط (ایوریج) سب سے بدتر 23.58 ہے۔ بس پھر کیا تھا، شائقین کرکٹ بھی اس بات کو زیر بحث لے آئے کہ 23.54 کی اوسط سے8ہزار رنز مکمل کرنا کونسے کمال کی بات ہے؟

میں نے آفریدی کے مداح کو یہ بھی کہتا سنا کہ آفریدی دراصل بالنگ آل راونڈر ہیں اور وہ ساتویں یا آٹھویں نمبر پر آتے ہیں اِس لیے یہ ریکارڈ بہت شاندار ہے۔ تو ایسے مداحوں کی خدمت میں پیش ہے کہ جناب پہلی بات تو یہ کہ اُنہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز اوپنگ بیٹسمین کے طور پر کیا تھا اور ایک طویل عرصے تک وہ اوپنگ ہی کرتے رہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ وہ باولنگ آل راونڈر ہیں تو بالنگ کا اوسط (ایوریج) کونسا شاندار ہے؟ 395 میچوں میں 395 وکٹیں! حد ہے یار، اب یہ تو کوئی بھی کرسکتا ہے، بھلا اِس میں کونسا کمال کیا ہے؟۔

میں اگر یہ کہوں کہ آفریدی کسی دوسرے ملک کی ٹیم میں ہوتے تو ان کی پرفارمنس پر انہیں چند میچز کے بعد ہی انتظار کی فہرست میں بٹھا دیا جاتا مگر ہم ہیں کہ لاڈلے بچے کی طرح پال رہے ہیں۔


1996سے اپنا کیریئر شروع کرنے والے آفریدی کوجارح مزاج ہونے کے سبب عوام کی جانب سے بوم بوم آفریدی کا خطاب ملا۔ لالہ کا گراؤنڈ میں آنے کا اپنا ہی ایک منفرد انداز ہے۔ آل راؤنڈر کی ٹیم میں اب تک رہنے کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ چاہیں وہ اچھی کارکردگی پیش کریں یا خراب مگر عوام میں مقبول رہے ہیں۔ اُن کے پرستار ہر میچ، ہر سیریز اور ہر ٹورنامنٹ میں آفریدی سے اچھے کھیل اور زیادہ سے زیادہ چھکے اور چوکوں کی اُمیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔

لالہ کے پرستاروں کا مزاج ہی کچھ مختلف ہے، آفریدی کے لیے اتنی آسانی ہے کہ وہ سال میں بس ایک تیز ترین اننگز کھیل کر بھی اپنے پرستاروں کے دلوں میں زندہ رہ جاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اُن لوگوں کی تعداد کچھ کم نہیں جو آفریدی کو اچھے کھلاڑی کے طور پر تصور نہیں کرتے۔

لیکن آخر میں یہ کہنا چاہوں گا، مجھے اِس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ہماری عوام آفریدی کو پسند کرتی ہے یا ناپسند، بس میں تو کرکٹ کے مداح کے طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے والا ہر ایک کھلاڑی خوش قسمت انسان ہے، جس کو کروڑوں لوگوں کے بیچ میں یہ موقع ملا کہ وہ ملک کی نمائندگی کرسکے۔ دنیا میں اِس سے بڑا شاید ہی کوئی اعزاز ہو۔ بس اِس لیے کھلاڑیوں سے عوام یہ اُمید بھی رکھتی ہے اور توقع بھی کہ وہ اپنے قوم کے اِس حق کو میدان میں ضرور چکائیں گے۔ اِس لیے محترم آفریدی سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سرکار آپ خوش قسمت ہیں کہ کسی غیر معمولی کارکردگی دکھائے بغیر بھی آپ کو عوام کا ایک حصہ پسند کرتا ہے ۔۔۔۔ بس آخری لمحات چل رہے ہیں اِس عالمی کپ میں قوم کا یہ قرض چکا دیجیے اور میدان میں ایسی کارکردگی دکھائیں کہ قوم ایک بار پھر عالمی چیمپئن بننے کا جشن مناسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔