آداب زندگی

پروفیسر محمد طاہر عظیمی  جمعـء 6 مارچ 2015
غمی میں شکوہ نہ کرنا اور راحت میں آپے سے باہر نہ ہونا ادب ہےفوٹو: فائل

غمی میں شکوہ نہ کرنا اور راحت میں آپے سے باہر نہ ہونا ادب ہےفوٹو: فائل

دین ادب ہے۔ دین سے مراد زندگی گزارنے کے اصول ہیں۔ ادب جذبہ اطاعت اور فرماں برداری و خلوص ہے۔ اپنی ذات کی نفی اور کسی کو دکھ نہ پہنچانا ادب ہے۔ بہترین اخلاق، تسلیم و رضا، عاجزی، اطاعت، احترام اور نرم خوئی ادب کی علامات ہیں۔

ادب تعلیمات اسلامی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اﷲ کے ساتھ ادب یہ ہے کہ خلوت و جلوت ہر حال میں اﷲ کو حاضر و ناظر جانے تاکہ احکام خداوندی کی پابندی میں آسانی ہو۔ اس سے قول و فعل کا تضاد ختم ہوجاتا ہے۔ جب انسان کے ہر خیال و عمل کی بنیاد اﷲ ہوگا تو انسان نیکی کی مستحکم حالت پر قائم رہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں سورۃ نجم میں واقعہ معراج کے حوالے سے فرماتے ہیں (نہ نگاہ بھٹکی نہ ادھر اُدھر اپنی جگہ سے ہٹی) یہ اﷲ کے ادب کا بہترین مظاہرہ ہے کہ حضوری کی انتہائی قربت کے باوجود بھی جناب رسالت مآب ﷺ نے بندگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

بندگی تسلیم و رضا کا نام ہے تو ادب یہ ہے کہ اﷲ جس شے کا حکم دے اسے فوراً بلا چوں چرا مان لیا جائے۔ اﷲ کے ہر حکم کو مقدّم رکھنا ادب ہے۔ کسی کو بھی اپنی ذات سے کم تر نہ سمجھنا اور ہر شے کو اﷲ کی جانب سے سمجھنا ادب کا تقاضا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اﷲ کی رضا میں اپنے ارادے کو بھی شامل کردینا ادب ہے۔ ہرحال میں اﷲ کی رضا پر راضی رہنا ادب کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ غمی میں شکوہ نہ کرنا اور راحت میں آپے سے باہر نہ ہونا ادب ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لیے اجتماعی زندگی کے اصول مقرر کیے ہیں۔ ادب کے اصول پر مخلوق کے ساتھ اجتماعی تعلقات زیربحث آتے ہیں۔ ماں باپ، استاد، بزرگوں، بچوں اور خواتین کے ادب کی یہ ساری جزئیات اجتماعیت کو صحیح نظام پر قائم رکھنے کے لیے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے بارہا حکم فرمایا ہے کہ سائل کو نہ جھڑکو، پھل دار درخت کو نہ کاٹو، بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو قتل مت کرو، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، کیوں کہ ان باتوں سے معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے اور مخلوق خدا پرسکون رہتی ہے۔

اسلام خیرخواہی کا دین ہے، جس میں معاشرے کے تمام طبقات میں امن و سکون، باہمی رواداری اور ہم دردی کو فروغ دینا ہے۔ اﷲ کی مخلوق کے ساتھ ادب احسان کا مرتبہ رکھتی ہے۔ حسن سلوک کی وجہ سے آپس میں انس و اخوّت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ مخلوق کے ساتھ حسن سلوک بھی ادب کے زمرے میں آتا ہے۔ ادب جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو انس سے گزر کر عشق تک پہنچ جاتا ہے۔ عشق ذہن و دل کو مرکزیت کے آداب سکھاتا ہے۔ ذہن و دل کا مرکز اﷲ ہے۔ مسلمان تعلیمات نبویؐ کی راہ نمائی میں بندگی کے آداب سیکھتا ہے۔

اپنے نفس کے ساتھ ادب بندے پر خود آگہی کا در کھول دیتا ہے۔ اپنے نفس کے ساتھ ادب یہ ہے کہ اخلاقی اور معاشرتی برائیوں سے اجتناب کیا جائے۔ ضمیر ایک ایسی کسوٹی ہے جو اچھائی اور برائی میں تمیز کرتی ہے۔ یہ حق کی ایسی آواز ہے جو خیر و شر کی خبر دیتی ہے۔ اپنی ذات کے ساتھ ادب یہ ہے کہ بندہ اپنے ضمیر کو پوری طرح بیدار رکھے اور ضمیر کی آواز پر دھیان رکھے۔ جھوٹ بولنا ضمیر گوارا نہیں کرتا کیوں کہ جھوٹ کی وجہ سے بندہ راہ حق سے ہٹ جاتا ہے۔ ضمیر کی خلاف ورزی انسان کو مجرمانہ ذہنیت کا شکار بنا دیتی ہے۔ اپنے نفس کا ادب یہ ہے کہ نفس اور انا کو لگام ڈال کر بس اس ہستی کو مالک و مختار سمجھے جو ہم سب اور کائنات کا خالق و مالک ہے۔

اپنے نفس کے ساتھ ادب کی منزل خود آگہی ہے۔ ادب زندگی کا وہ قرینہ ہے جس سے انسان کے اندر موجود صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ آداب زندگی میں یہ بھی شامل ہے کہ ان مظاہر قدرت کا احترام کیا جائے جو ہماری زندگی کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ پانی کا ادب یہ ہے کہ اسے ضائع نہ کریں، آکسیجن کا ادب یہ ہے کہ درختوں کو نہ کاٹا جائے اور تکلیف دینے والی چیزوں کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ لوگوں سے احترام اور ادب سے پیش آنا، کسی جان دار کو ایذا نہ پہنچانا بھی آداب زندگی میں شامل ہے۔ مظاہر قدرت کا احترام کرنا بھی آداب زندگی میں شامل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔