جاپانی گڑیوں کا تہوار

محمد ارشد قریشی  جمعـء 6 مارچ 2015
کئی گھروں میں جوان لڑکیاں اس تہوار پر مذہبی عقیدے کے تحت ان گڑیاؤں سے کھیلتی ہیں۔ فوٹو رائٹرز

کئی گھروں میں جوان لڑکیاں اس تہوار پر مذہبی عقیدے کے تحت ان گڑیاؤں سے کھیلتی ہیں۔ فوٹو رائٹرز

دنیا کی ہر قوم اپنی ثقافت پر فخر کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ اُسے پوری دنیا میں متعارف کرائے، مجھے دنیا کی مختلف ثقافتوں کے بارے میں جاننے کا شوق زمانہ طالب علمی سے ہی رہا ہے، لیکن مجھے ان ثقافتی تہواروں کو دیکھنے سے زیادہ دلچسپی ان کے تاریخی پس منظر میں رہی کہ ایسے تہوار کب اور کیسے شروع ہوئے اور ان تہواروں کو منانے والوں کا عقیدہ کیا ہے؟

اسی طرح کا ایک ثقافتی تہوار 3 مارچ سے جاپان سمیت پوری دنیا میں رہنے والے جاپانی مناتے ہیں جسے ’’حنا ماتسوری‘‘ کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ’’لڑکیوں کا دن‘‘ منانا بھی ہے۔ یہ تہوار 3 مارچ سے شروع ہوکر 7 مارچ کو اختتام پذیر ہوتا ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے یہ تہوار جاپان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کے بارے میں جاننے کے لئے میں نے جاپان میں رہنے والے اپنے چند دوستوں سے دریافت کیا، اِس کے علاوہ کئی جاپانی میگزین کے مطالعے سے بھی اِس بارے میں خاصی معلومات میسر آئیں، ساتھ ہی انٹرنیٹ پر بھی کچھ مواد پڑھنے کو ملا لیکن اِن سب باتوں کی حقیقت جاننے کے لئے جب میں نے ریڈیو جاپان کی اردو سروس سے رابطہ کیا تو جہاں تہوار کے حوالے سے مکمل معلومات میسر آئیں، وہیں کئی دلچسپ باتیں اور اس تہوار کی تاریخی حیثیت کا بھی اندازہ ہوا ۔

حنا ماتسوری تہوار کی تاریخ 1200 سال پرانی ہے، ماضی میں یہ تہوار چین سے جاپان منتقل ہوا۔ سن 784 سے 1185 کے درمیان ہیان دورمیں اِس تہوار کی شروعات ہوئی۔ اِس تہوار کے منانے والوں کا عقیدہ تھا کہ اِس کو منانے سے اُن کے گھر پیدا ہونے والی لڑکیوں کے نصیب اچھے ہونگے، ساتھ ہی جو لڑکیاں پہلے سے ہی گھر میں موجود ہیں اُن کے اچھے رشتے آئیں گے۔ اِس مقصد کے لئے وہ مختلف چیزوں سے خوبصورت گڑیا بناتے اور انہیں اپنے گھروں میں سجاتے تھے۔ اِن گڑیاؤں کو سرخ رنگ کا لباس پہنایا جاتا تھا۔ چینیوں کے جشن بہاراں تہوار کی طرح اس تہوار میں بھی سرخ رنگ کو خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

فوٹو؛ اے ایف پی

اِس تہوار کے موقع پر خصوصی پکوان بنائے جاتے اور گھروں میں عبادت کی جاتی جس میں لڑکیوں کے اچھے مستقبل، صحت اور درازی عمر کی دعائیں کی جاتی ہیں اور اس تہوار کا ایک خصوصی پکوان ’’خمیرے چاول‘‘ بناکراس سے مہمانوں کی خاطر مدارت کی جاتی ہے۔ جوں جوں جاپان ترقی کے مراحل طے کرتا گیا اس تہوار میں بھی جدت آتی گئی، قدیم جاپان میں اس تہوار کو قمری کیلینڈر کے مطابق ہر سال کے تیسرے مہینے کی تیسری تاریخ کو منایا جاتا تھا جو اس مناسبت سے اب ہر سال 3مارچ کو منایا جاتا ہے۔

دنیا میں رہنے والے تمام جاپانی 3 مارچ کو یہ تہوار بہت جوش وخروش اور مذہبی جذبات کے ساتھ مناتے ہیں  جس کی تیاریاں فروری کے اختتام سے ہی شروع ہوجاتی ہیں۔ ہر گھر میں الماریوں میں رکھی گڑیوں کو نکالا جاتا ہے، انہیں نئے اور خوبصورت لباس اور زیور پہنائے جاتے ہیں، جن کو خوشبو لگائی جاتی ہے اور جن گھروں میں لڑکیاں جوان ہوتی ہیں وہاں گڑیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ گڑیوں کی شادی سے اگلے تہوار تک ان کی بیٹیوں کی شادیاں ہوجائیں گی۔

ہیان دور میں قیمتی گڑیوں سے صرف شاہی خاندان کے لوگ ہی کھیلا کرتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گڑیوں کا کھیل ایک عام جاپانی کی دسترس میں بھی آگیا۔ جدید جاپان میں ان گڑیوں کاتہوار یعنی حنا ماتسوری ایک بہت بڑے’’ گڑیوں کے میلے ‘‘کی شکل اختیار کرچکا ہے۔اس میلے میں دنیا بھر سے سیاح شرکت کرتے ہیں، فروری کے اختتام سے لیکر مارچ کے پہلے ہفتے تک آپ کو جاپان کی ہر دکان میں یہ جاپانی گڑیاں سجی سجائی اور ہر گڑیا ایک سرخ چبوترے پر بیٹھی نظر آئے گی ۔

ان گڑیوں کو نہایت شاندار طریقے سے شیلف میں رکھا جاتا ہے، جس کی ایک ترتیب ہمیشہ سے ہی مخصوص رہی ہے، انہیں سرخ رنگ کے خوبصورت قالین سے سجے شیلفوں میں 7 درجوں میں سجایا جاتا ہے۔ سب سے اوپر والے درجے میں سب سے اہم گڑیاں ہوتی ہے جو کہ بادشاہ اور ملکہ کہلاتے ہیں، دوسرے درجے کی گڑیاں کنیزیں کہلاتی ہیں، جبکہ تیسرے درجے میں رکھی گڑیاں دربار کے موسیقار و گلوکار کہلاتی ہیں، اِسی طرح چوتھے درجے میں جو گڑیاں ہوتی ہیں وہ وزیر کہلاتی ہیں اور ان کے درمیان ملکہ اور بادشاہ کے کھانے پینے کی اشیاء کو رکھا جاتا ہے، پانچویں درجے میں بادشاہ اور ملکہ کے محافظ ہوتے ہیں جبکہ چھٹے درجے میں بادشاہ اور ملکہ کے استعمال میں آنے والا فرنیچر اور دیگر اشیاء رکھی جاتی ہیں اور آخری درجے میں بادشاہ اور ملکہ کے استعمال میں آنے والی سواریوں کو سجایا جاتا ہے۔ کئی گڑیوں کے شیلف کی درجہ بندی تو100 درجوں تک بھی محیط ہوتی ہے۔

فوٹو؛ وکی پیڈیا

اس تہوار کے بارے میں ایک جاپانی دوست سے بات کرتے ہوئے ایک دلچسپ بات میرے علم میں آئی کہ جاپان میں بنائی جانے والی گڑیاں بہت قیمتی اجزاء سلیکون ربڑ کے ذریعے بنائی جاتی ہیں، جو بہت مہنگا ہوتا ہے پھر اس میں ایک مخصوص لکڑی او ایک دھاتی پاوڈر کی آمیزش کی جاتی ہے جبکہ گڑیا کے بالوں کے لئے انسانی بال استعمال کئے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ گڑیائیں قیمت میں بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ اس لئے جو لوگ انہیں خریدتے ہیں وہ انہیں آئندہ آنے والے تہواروں کے لئے بہت حفاظت سے رکھتے ہیں۔

یوں تو گڑیوں سے کھیلنا اور ان کی دھوم دھام سے شادیاں کرنا ہماری بچیوں کا بھی دلچسپ مشغلہ ہے، جوکسی حد تک جاپانی ثقافت میں گڑیوں سے کھیلنے سے مماثلت بھی رکھتا ہے۔ لیکن ہم جاپانی گڑیوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی کرسکتے ہیں کہ ا حمد رشدی مرحوم نے اپنے ایک گیت میں بھی ان گڑیوں کا ذکر کچھ یوں کیا تھا؛

’’ الف سے اچھی ،گ سے گڑیا، ج سے جاپانی ‘‘


اس تہوار کے بارے میں اتنا کچھ جاننے کے بعد مجھے ایک اور بات کی خوشی ہے کہ اس دفعہ کراچی میں بھی جاپانی قونصل خانہ کی طرف سے 3 سے 7 مارچ تک ان گڑیوں کی نمائش جاری رہے گی، جو یقیناَایک اچھا قدم ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

محمد ارشد قریشی

محمد ارشد قریشی

ریڈیو لسننگ سے وابسطہ ہیں، اکثر ریڈیو میں لکھتے ہیں۔ شعر و شاعری اور سماجی کاموں سے دلچسپی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔