کامیاب عائلی زندگی کیسے ممکن ہے؟

مولانا وحید الدین خان  ہفتہ 7 مارچ 2015
مولانا وحیدالدین خاں۔ فوٹو: فائل

مولانا وحیدالدین خاں۔ فوٹو: فائل

ایک روایت کے مطابق پیغمبر اسلام ﷺ کا فرمان ہے: دنیا کی چیزوں میں سے سب سے اچھی چیز صالح عورت ہے۔ (صحیح مسلم) اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت جو پیدا ہوتی ہے، وہ اپنے فطری امکان (Potential) کے اعتبار سے کسی مرد کے لیے سب سے اچھی متاع حیات ہے۔ لیکن اس امکان کو واقعہ (Actual) بنانا مرد کا کام ہے۔ جس طرح خام لوہا (ore) فطرت کا عطیہ ہوتا ہے، لیکن خام لوہے کو اسٹیل بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔

مرد کی پہلی ذمے داری یہ ہے کہ وہ عورت کا قدر داں بنے۔ وہ عورت کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو پہچانے۔ وہ عورت کے حسن باطن کو دریافت کرے۔ عورت کی شکل میں ہر مرد کو ایک اعلیٰ فطری امکان ملتا ہے۔ اب یہ خود مرد کے اوپر ہے کہ وہ اس واقعے کو امکان بنائے، یا وہ اس کو ضائع کردے۔

اس عمل کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ جو عورت کسی آدمی کو بیوی کے طور پر ملی ہے، وہ اس کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا عطیہ سمجھے۔ جب وہ اپنی بیوی کو خدا کا براہ راست عطیہ سمجھے گا تو فطری طور پر وہ اس کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے گا اور یہ یقین کرے گا کہ خدا کا انتخاب غلط نہیں ہوسکتا۔ خدا کا انتخاب جس طرح دوسرے تمام عالمی معاملات میں درست ہوتا ہے، اسی طرح یہاں بھی وہ درست ہے۔ مرد کے اندر جب یہ ذہن بنے گا تو اس کے بعد وہ عمل اپنے آپ شروع ہوجائے گا جو عورت کے امکان کو واقعہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اپنی بیوی کو خدا کا عطیہ سمجھنے کے بعد اس کے ساتھ معاملہ کرنے کو وہ اپنے لیے عبادت سمجھے گا۔ وہ ہر ممکن قیمت ادا کرتے ہوئے یہ کوشش کرے گا کہ اس کی بیوی حقیقی معنوں میں اس کے لیے دنیا کی سب سے اچھی متاع حیات بن جائے۔

ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس کو اچھی بیوی ملے۔ لیکن اچھی بیوی کسی کو ریڈی میڈ سامان کی طرح نہیں ملتی۔ شوہر کو یہ کام خود کرنا پڑتا ہے۔ اس عمل کی کامیابی کے لیے مرد کے اندر دو صفت کا ہونا ضروری ہے۔ سچی ہمدردی اور صبر و تحمل۔

ایک حدیث

ازدواجی رشتے کے بارے میں ایک جامع نصیحت حدیث میں آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی مومن مردکسی مومن عورت سے بغض نہ رکھے۔اگر عورت کی ایک خصلت اس کو ناپسند ہو تو اس کے اندر کوئی دوسری خصلت موجود ہوگی جو اس کو پسند آئے۔ (صحیح مسلم)

اصل یہ ہے کہ کسی عورت یا مرد کے اندر ساری اچھی صفات پائی نہیں جاتیں۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ کسی کے اندرایک صفت موجود ہوتی ہے تو اس کے اندر دوسری صفت موجود نہیں ہوتی۔ مثلاً عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایک عورت یا مرد اگر ظاہری دل کشی کے اعتبار سے زیادہ ہوں تو وہ داخلی خصوصیات کے اعتبار سے کم ہوں گے اور اگر کسی میں داخلی خصوصیات زیادہ ہوں تو اس کے اندر خارجی صفات کم پائی جائیں گی۔

انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ کسی کے منفی پہلو کو زیادہ دیکھتا ہے، اس کے مثبت پہلو اس کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک تباہ کن مزاج ہے۔ اسی مزاج کی وجہ سے رشتوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بجائے اگر ایسا کیا جائے کہ مثبت پہلو پر دھیان دیا جائے اورمنفی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو تعلقات خود بخود خوش گوار ہوجائیں گے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ہر مرد کو اس کی بیوی بہترین رفیق حیات دکھائی دے گی اور ہر عورت کو اس کا شوہر بہترین رفیق زندگی نظر آئے گا۔

خدا نے کسی عورت یا مرد کو کم تر پیدا نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد اپنے آپ میں بااعتبار تخلیق کامل ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے فہم کا قصور ہے کہ ہم کسی کو کم اور کسی کو زیادہ سمجھ لیتے ہیں۔ عورت اورمرد اگر اس حقیقت کو جان لیں تو ان کی زندگی شکر کی زندگی بن جائے، شکایت یا محرومی کا احساس ان کے اندر باقی نہ رہے اور پھر وہ زیادہ بہتر طور پر زندگی کی تعمیر کے قابل ہوجائیں۔

کنڈیشننگ کو توڑنا

شادی کے بعد جب ایک عورت اور ایک مرد باہم اکٹھا ہوتے ہیں تو یہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی، یہ دو مختلف شخصیتوں کا ایک ساتھ جمع ہونا ہے۔ان میں سے ہر ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ ایک لفظ میں، عورت مسِزکنڈیشنڈ ہوتی ہے اور مرد مسٹر کنڈیشنڈ۔

یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ کوئی عورت یا مرد جب پیدا ہوتے ہیں تو اپنے اپنے ماحول کے لحاظ سے دونوں کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے۔ گھر کا ماحول اور گھر کے باہر کا ماحول دونوں کے اثر سے ہر ایک کا دھیرے دھیرے ایک متاثر ذہن (Conditioned Mind) بن جاتا ہے۔ ہر ایک کے اوپر اس کا یہ متاثر ذہن اتنا زیادہ چھا جاتا ہے کہ ہر ایک اپنے خول میں جینے لگتا ہے۔ ہر ایک اپنے کو درست سمجھنے لگتا ہے اور دوسرے کو نا درست۔ اسی تاثر پذیری کو کنڈیشننگ کہا جاتا ہے۔ کنڈیشننگ کا یہ معاملہ ہر ایک کے ساتھ بلا استثنا پیش آتا ہے۔

ایسی حالت میں جب ایک عورت اور ایک مرد باہم اکٹھا ہوتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔ عورت اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے ایک چیز کو ہرے رنگ میں دیکھ رہی ہوتی ہے اور مرد کو وہی چیز اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے نیلے رنگ میں دکھائی دیتی ہے۔ اس فرق کی بنا پر دونوں میں بار بار اختلافات پیدا ہوتے ہیں جو بڑھ کر شدت اختیار کر لیتے ہیں۔

اس مسئلے کا واحد حل ڈی کنڈیشننگ ہے، اور ڈی کنڈیشننگ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھلے ذہن سے ڈسکشن کریں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ برابر انٹلیکچول ایکسچینج کریں۔ اسی کے ساتھ دونوں کے اندر اعتراف کا مزاج لازمی طور پر ضروری ہے۔ یعنی حقیقت کھل جانے کے بعد فوراً اس کو مان لینا اور فوراً یہ کہہ دینا کہ۔۔۔ اس معاملے میں میں غلطی پر تھا: I was wrong.

اپنی غلطی کو کھلے طور پر مان لینا، یہی اپنی ڈی کنڈیشننگ کا واحد کامیاب طریقہ ہے۔

بے مقصد زندگی

ایک سفر میں میری ملاقات ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ان کا مکان کافی بڑا تھا۔ لیکن اس میں دو کے سوا کوئی اور فرد موجود نہ تھا۔ بظاہر سجے ہوئے مکان کے اندر دو بالکل سادہ انسان رہ رہے تھے۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ ان کے یہاں ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ دونوں کو انہوں نے اچھی تعلیم دلائی، مگر تعلیم کی تکمیل کے بعد دونوں باہر چلے گئے۔ اب دونوں باہر کے ایک ملک میں رہ رہے ہیں اور غالباً وہاں کے شہری بن گئے ہیں۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ کیا آپ کو بچوں کی یاد آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ سوچ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے بچے جہاں ہیں، وہاں وہ خوش ہیں۔

اس طرح کے بہت سے جوڑے ہیں۔ انہوں نے بڑے شوق کے ساتھ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، لیکن جب بچے تعلیم یافتہ ہوگئے تو وہ باہر چلے گئے۔ اب یہ لوگ اپنے شاندار گھروں میں بے شان زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس گزرے ہوئے دنوں کی یادوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ کہانی اکثر ان لوگوں کے ساتھ پیش آرہی ہے جو پیسے کے اعتبار سے خوش حال سمجھے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے پیسہ کما کر بظاہر اپنے لیے ایک کامیاب دنیا بنائی، لیکن جلد ہی ان کی امیدوں کی دنیا اُجڑ گئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا کوئی مستقل مقصد نہیں بنایا تھا۔ ان کا واحد مقصد بچوں کو خوش کرنا تھا۔ بعد کو جب بچوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تو ان کے سامنے زندگی کا کوئی نشانہ باقی نہ رہا۔

مقصد وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہو، کسی کے رہنے یا نہ رہنے سے اس میں فرق نہ آتا ہو۔ ایک عورت اور ایک مرد نکاح کے رشتے میں بندھ کر اس قابل بنتے ہیں کہ وہ خود اپنی ایک دنیا تعمیر کریں، مگر غیر حقیقی محبت کے نتیجے میں وہ اپنے بچوں کو اپنی امیدوں کا مرکز بنا لیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کی ذمے داری ہے نہ کہ ان کی زندگی کا مقصد۔ والدین اگر اس فرق کو سمجھ لیں تو وہ اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کریں گے اور پھر وہ کبھی افسردگی اور مایوسی کا شکار نہ ہوں گے۔

فارمولا آف تھرٹی سیکنڈ

مرد اپنی فطرت کے اعتبار سے انانیت پسند ہے اور عورت اپنی فطرت کے اعتبار سے جذباتی ہے۔ اسی فرق کی بنا پر اکثر دونوں میں جھگڑا کھڑا ہو جاتا ہے۔ دونوں کے درمیان اس فرق کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جب مرد کی انا بھڑکے تو عورت خاموش ہوجائے اور جب عورت کے جذبات بھڑکیں تو مرد خاموشی اختیار کرلے۔ دونوں میں سے کوئی بھی ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرے۔اس کے سوا اس مسئلے کا کوئی اور حل سرے سے ممکن ہی نہیں۔

ہر منفی جذبہ، مثلاً غصے وغیرہ کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ بھڑکتا ہے تو وہ اپنے آپ بھڑکتا ہے، لیکن ابتدائی طور پر وہ ایک حد کے اندر ہی رہتا ہے۔ حد سے آگے جانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اس کو کوئی بڑھاوا (Boost) دینے والا بڑھاوا دے۔ یہ بڑھاوا دینے والا خود کوئی انسان ہوتا ہے۔ اگر آدمی اپنی طرف سے بوسٹ فراہم نہ کرے تو ہر منفی جذبہ تھوڑی دیر کے بعد اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔منفی جذبے کے بارے میں فطرت کا قانون یہ ہے کہ وہ پیدا ہونے کے بعد تھرٹی سیکنڈ تک اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اس کے بعد اگر اس کو مزید بوسٹ نہ ملے تو تھرٹی سیکنڈ کے بعد وہ فطری طور پر نیچے کی طرف جانے لگتا ہے۔

شوہر اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ فطرت کے اس قانون کو سمجھیں، جس کو ہم نے تیس سیکنڈ کا فارمولا (Formula of 30-Seconds) کہا ہے۔ فطرت کے اس قانون کو جاننا شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ جو شوہر اور بیوی اس قانون کو جان لیں، ان کی زندگی میں کبھی ایسا بحران (Crisis) نہیں آئے گا جو بڑھ کر بریک ڈاؤن (Break Down) تک پہنچ جائے۔ خالق نے فطرت کے اندر تمام ضروری تحفظات (Safeguard) رکھ دیئے ہیں۔ کسی عورت یا مرد کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ فطرت کے اندر پہلے سے موجود ان تحفظات کو جانے اور ان کو اپنی عملی زندگی میں استعمال کرے۔ فطرت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خاموش زبان میں بولتی ہے۔ جو لوگ خاموش زبان کو سننے کی استعداد رکھتے ہوں، وہی لوگ فطرت کی اس آواز کو سنیں گے اور اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔