ڈی سی کی گھوڑی اور دمشق کا چرواہا

عبدالقادر حسن  ہفتہ 7 مارچ 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

گجرات کے صاحب ضلع یعنی ڈی سی صاحب بہادر کی گھوڑی چوری ہو گئی اور یہ اس طرح کہ گجرات کا ایک معروف رسہ گیر جس کا نام یاد نہیں آ رہا اپنی ہنرمندی میں یکتا تھا۔ ایک دن اس کے ہاں گپ شپ کی محفل گرم تھی کہ کسی نے کہا کہ چوہدری بات تو تب ہے اگر ڈی سی کی گھوڑی چوری ہو جائے۔

اس ناممکن سی بات پر ایک قہقہہ بلند ہوا چوہدری بھی چپ رہا اور پھر دوسری باتیں شروع ہو گئیں کیونکہ ڈی سی کی گھوڑی چرانا محض ایک گپ تھی کس کی مجال کہ صاحب ضلع کی گھوڑی چرا لے۔ کوئی دو دن بعد یہ حیران کن خبر ملی کہ ڈی سی کی گھوڑی چوری ہو گئی اور ضلع کی پولیس کی جان پر بن گئی ہے۔ پولیس نے ضلع بھر کو چھان مارا اور اس مشہور رسہ گیر سے بھی بات کی گئی لیکن اس نے جواب میں کہا کہ میری یہ مجال تو ہو ہی نہیں سکتی البتہ میں ہر خدمت کے لیے تیار ہوں اور گھوڑی کو تلاش کرنے میں پولیس کے ساتھ ہوں۔

پولیس کو یقین آ گیا کہ یہ تجربہ کار اور جہاندیدہ رسہ گیر ایسی جرات اور جسارت کیسے کر سکتا ہے۔ جس میں جان تک کا خطرہ ہو۔ انگریز کا زمانہ تھا اور یہ پولیس کا بہت بڑا امتحان تھا لیکن گھوڑی نہ مل سکی وہ نہ جانے کس کس ضلع میں سے ہوتی ہوئی کہیں ایسی ایسی جگہ پہنچ گئی جو پولیس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی بلکہ یہ سمجھا جانے لگا کہ مال مسروقہ اب تک ٹھکانے لگ چکا ہو گا۔ اس دوران گجرات کا یہ رسہ گیر بھی پولیس کے ساتھ رہا لیکن اس کے تعلقات سے بھی پولیس کو کچھ فائدہ نہ ہو سکا۔

مجھے یہ پرانا سنا ہوا واقعہ لاہور میں ڈی سی اوز کے بادشاہ کے ہاں سے بجلی کا ٹرانسفارمر چوری ہونے کی اطلاع سے یاد آیا۔ معلوم ہوا کہ ہمارے بھائی ملک صفدر جو وزیراعظم کے داماد ہیں ان کی فلور ملز کا ٹرانسفارمر بھی چوری ہو چکا ہے۔ جن چوروں نے ملک کے اعلیٰ ترین گھر سے چوری کی ہے ان کو چوروں کا بادشاہ ہی نہیں بلکہ شہنشاہ کہنا چاہیے۔

گجرات کا یہ تاریخی رسہ گیر بلاشبہ اپنے زمانے کا عظیم ترین رسہ گیر تھا جس نے ڈی سی تک بلکہ یوں کہیں کہ ملکہ برطانیہ کے گھر کو بھی نہ بخشا اور رسہ گیری کی نئی تاریخ بنا گیا لیکن یہ ٹرانسفارمر چرانے والے بھی کچھ کم ہنرمند اور جرات مند نہ تھے جنہوں نے وزیراعظم کے گھر پر ڈاکہ ڈالا اور ہر ایک کو حیران کر گئے یعنی بظاہر ناممکن کو ممکن بنا ڈالا۔ ان کا یہ کارنامہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

لاہور میں ہر روز چوریاں ہوتی ہیں اور ڈاکے پڑتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کے ڈاکے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس شہر میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے، بینک لُٹ رہے ہیں‘ بڑے بڑے افسروں کے گھر لوٹے جا رہے ہیں اور اہل خانہ کو رسیوں اور دوپٹوں سے باندھ کر وارداتیں کی جا رہی ہیں۔ بازار میں خواتین سے بلا خوف ان کے پرس چھینے جا رہے ہیں اور ان لٹیروں کو ٹوکنے والا کوئی نہیں بلکہ اب تو ایسی خبریں بھی مل رہی ہیں کہ پولیس کے اعلیٰ افسروں نے لوٹ مار کی یعنی رشوت لی اور پھر آپس میں بانٹ لی۔

یہ دونوں ٹرانسفارمر اونچے گھر کے نہ ہوتے تو یہ خبر بھی نہ بن پاتے۔ جہاں لاکھوں کروڑوں لوٹے جا رہے ہوں وہاں چند ہزار کے دو ٹرانسفارمر کیا چیز ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسانوں نے جب اپنی جنگلی زندگی کو خیر باد کہہ کر شہری تمدن اختیار کیا تو جو حکومت بنائی گئی اس کے دو بنیادی کام تھے ایک جان کی حفاظت دوسری مال کی حفاظت۔ یعنی جان و مال کا تحفظ کسی حکومت کا اولین فرض تھا کیونکہ متمدن زندگی اس تحفظ کے بغیر وہی پرانی جنگلی زندگی بن جاتی ہے اور اس کا بنیادی مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے مگر اب جب حکمرانوں کے اپنے وہ محفوظ گھر بھی محفوظ نہیں جو ملک بھر میں سب سے زیادہ محفوظ سمجھے جاتے ہیں تو ایک عام آدمی کی کیا حیثیت ہے وہ تو ہروقت معرض خطر میں ہے اور اللہ کی ذات پر توکل کر کے زندہ ہے۔

اس حال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پولیس وغیرہ کیوں ہے اور اس پر کروڑوں اربوں روپے کیوں خرچ ہو رہے ہیں۔ ہمارے نئے سیاسی لیڈر اور سابق گورنر جناب سرور صاحب نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں پولیس اور ڈاکو میں کوئی فرق نہیں ہے وہ لندن سے سیدھے لاہور آئے ہیں اور دونوں شہروں میں جو فرق پایا ہے اسے وہ چھپا نہیں سکتے اور یہ اس قدر واضح ہے کہ اسے بیان کیے بغیر وہ رہ نہیں سکتے۔

جس ملک سے لوگ باہر بھاگ جانے کی فکر میں ہوں اور دن رات یہاں سے نکل جانے کے راستے اور طریقے تلاش کر رہے ہوں وہاں اگر کوئی باہر شاندار زندگی گزارتے ہوئے بھی واپس پاکستان آ جائے تو وہ تو پولیس اور ڈاکو میں فرق تلاش نہیں کر سکے گا۔ ہمارے جان و مال کے تحفظ کی تازہ اور منفرد مثال شاید یہی جاتی امراء کی چوری کی ہے اگر وزیراعظم کا گھر محفوظ نہیں تو میرے جیسے کسی عام شہری کا گھر کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اگر کسی شہری کے گھر کوئی ڈاکو نہیں آیا تو یہ اس کی مہربانی ہے ورنہ اسے کسی پولیس وغیرہ کا کوئی خطرہ نہیں ہے جس کے ڈر سے وہ ڈاکہ زنی سے باز آ جائے۔

اخبارات میں ہر روز بلاناغہ چوریوں اور ڈاکوؤں کی جو خبریں چھپتی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہر میں کئی افراد ایسے ہیں جن کا روزگار ہی چوری چکاری ہے اور چونکہ ان کو کسی حکومت سے کوئی خطرہ نہیں ہے اس لیے وہ خود ہی تھک ہار کر آرام کے لیے کبھی چھٹی کر جاتے ہیں ورنہ انھیں اس کی کوئی مجبوری نہیں ہے۔

عوام کو تحفظ صرف حکمرانوں کے خلوص نیت سے ہی مل سکتا ہے اور ماتحت ادارے صرف خوف خدا رکھنے والے حکمرانوں کا حکم ہی بجا لاتے ہیں اور اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ دمشق کے قریب ایک چراگاہ میں بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں سے ایک بکری مار کر لے گیا۔ جب ریوڑ کے مالک کو اس کا علم ہوا تو اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور بلند آواز میں ماتم کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر اس کے بیٹے نے کہا کہ بابا یہ تو ایک معمول ہے اور ایسا کئی بار ہوتا رہا ہے۔ بھیڑیے آتے ہیں اور بکریاں لے جاتے ہیں ‘آپ اس قدر ماتم کیوں کر رہے ہیں۔

یہ سن کر اس بزرگ نے بیٹے سے کہا کہ میں بکری کا ماتم نہیں کر رہا۔ میرا حکمران اور محافظ فوت ہوگیا ہے۔ میں اس کا ماتم کر رہا ہوں۔ یہ واقعہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ عین اس وقت دمشق میں خلیفہ عمر بن عبدالعزیز فوت ہو گئے تھے اور یہ چرواہا کہہ رہا تھا کہ میرا محافظ مر گیا ہے اور میرے سر سے حفاظت کرنے والے کا سایہ اٹھ گیا ہے میں اس کا ماتم کر رہا ہوں کسی بکری کا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔