ہماری سیاست جمود کا شکار کیوں ؟

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 7 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستانی سیاست میں سنجیدگی اور قول و فعل میں مطابقت کا کلچر سرے سے موجود ہی نہیں جس کی وجہ سے نہ صرف سیاست ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے بلکہ عوامی مسائل میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے اور سیاسی جمود طاری ہے۔

ہر ملک کے مخلص سیاستدان جب برسر اقتدار آتے ہیں تو پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ اہم قومی مسائل کی ایک فہرست تیار کرتے ہیں اور اس میں ترجیحات کا تعین کے عملی اقدامات کرتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان اپنا سارا وقت اوٹ پٹانگ بیان بازیوں ہی میں گزار دیتے ہیں۔

ہماری سیاسی زندگی کا 67 سالوں سے پہیہ اس لیے جام ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے نہ سیاسی مرض کی تشخیص کرنے کی کبھی زحمت کی نہ اس کے علاج کی طرف توجہ دی۔ جن ملکوں کے سیاستدانوں نے اپنی معاشرتی زندگی کو جاگیردارانہ نظام کے عذاب سے نجات دلائی وہ قومیں جمہوریت سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں یہ صورت حال ترقی یافتہ ملکوں ہی میں نہیں بلکہ پسماندہ ملکوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں نے اپنی سیاسی زندگی کا سفر ایک ساتھ شروع کیا بھارت ہی نہیں بنگلہ دیش سمیت کئی نو آزاد ملکوں کی سیاسی قیادت نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلا کام جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کا کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ملکوں میں جمہوریت کا کلچر مضبوط ہوا اور یہ ملک صنعتی ترقی کی راہ پر چل پڑے۔

ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے وہ تمام علاقے صدیوں پرانے قبائلی، سرداری اور وڈیرہ شاہی نظام پر مشتمل تھے اور اب تک ہیں دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں نے سیاست اور اقتدار پر اس مضبوطی سے قبضہ جمایا ہوا ہے کہ اس میں معنوی تبدیلی کے دور دور تک آثار نہیں دکھائی دیتے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وڈیرہ شاہی سیاست کاروں نے سیاست جمہوریت اور انتخابی نظام کو جن خطوط پر استوار کیا ہے۔

ان میں عام آدمی کے آگے بڑھنے کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے بلکہ اس موروثی سیاست نے اپنے اقتدار کو مضبوط اور دائمی بنانے کے لیے ولی عہدی کا ایسا کلچر فروغ دیا ہے کہ آنے والی کئی نسلوں تک سیاست اور اقتدار پر ان عوام دشمن طبقات کا قبضہ برقرار رہ سکتا ہے۔

ہمارے ملک کی ترقی پسند سیاست نے ابتدائی دور میں نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کی لیکن جب پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست مفلوج ہوتی گئی تو اہم قومی مسائل پر جدوجہد کا سلسلہ بھی رک گیا اور موقع پرست سیاستدانوں نے نان ایشوز پر اپنی سیاست کا محل کھڑا کیا اہم قومی مسائل پس پشت چلے گئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی بات کی جا رہی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ نظام ہماری سیاست ہماری نام نہاد جمہوریت میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ یہ محض بیانات سے کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔

اس کے لیے ایک انتہائی منظم منصوبہ بند اور جاندار سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے ملک کی وہ پارٹیاں جن پر وڈیرے جاگیردار قابض ہیں جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کی بات بھی نہیں کریں گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی بڑی پارلیمانی پارٹیوں پر جاگیرداروں کا قبضہ ہے اور وہ پارٹیاں جن پر صنعتی گھرانے قابض ہیں وہ اپنے سیاسی مفادات کی خاطر وڈیروں جاگیرداروں کی اتحادی ہیں وہ اپنے مفادات کی وجہ سے کبھی کسی صورت میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی بات نہیں کر سکتیں۔

پچھلے دس بارہ برسوں سے ہمارا ملک جس مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہے وہ اصل میں اسی نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام کا عطیہ ہے اور منطقی تقاضا یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور اس کی کو پروڈکٹ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے اس سڑے گلے نظام کو ختم کرنا ہو گا جو خودکش حملہ آور تیار کرتا ہے لیکن ہماری ساری توجہ مختلف آپریشنز پر ہی مرکوز ہے۔ ہماری وڈیرہ شاہی جمہوریت میں کوئی تبدیلی اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک ہماری سیاست پر زمینی اور صنعتی اشرافیہ قابض ہے۔

ہمارے قانون ساز اداروں ہماری حکومتوں میں نیچے سے اوپر تک وڈیرے اور جاگیردار بھرے ہوئے ہیں وہ کسی قیمت پر اقتدار اور اختیار سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔کہا جاتا ہے کہ مڈل کلاس پر مشتمل سیاسی پارٹیاں اس کلچر کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن دیکھا یہی جا رہا ہے کہ مڈل کلاس کی جماعتیں بھی بیان بازی سے آگے کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں بعض مذہبی جماعتیں زور و شور سے جاگیردارانہ نظام کے خلاف باتیں کر رہی ہیں لیکن جاگیردارانہ نظام نہ باتوں سے ختم ہو سکتا ہے نہ بیانات سے بلکہ اس کے خاتمے کے لیے ایک بڑے اتحاد کی ضرورت ہے ۔

جس کا واحد مقصد زرعی اصلاحات ہو۔ عوام یہ سوچنے اور سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جاگیردارانہ نظام کو عوام دشمن کہنے والے اس عوام دشمن نظام کے خلاف ایک موثر اور طاقتور تحریک کیوں نہیں چلاتے؟

اس حوالے سے عوام کس قدر پرعزم ہیں اس کا اندازہ عمران خان اور طاہر القادری کی تحریک سے ہو سکتا ہے۔ ان لیڈران نے جب Status Quo توڑنے کی بات کی تو لاکھوں مرد عورتیں بچے بوڑھے سڑکوں پر آ گئے اگرچہ یہ تحریک اپنی خامیوں کوتاہیوں کی وجہ ناکام ہو گئی لیکن عوام کا عزم بہرحال برقرار ہے اگر کوئی مڈل کلاس سیاسی جماعت یا جماعتوں کا اتحاد آج بھی Status Quo توڑنے کے نعرے کے ساتھ خلوص اور پلاننگ کے ساتھ میدان میں آتا ہے تو اس ملک کے 18 کروڑ عوام اس کے پیچھے آہنی دیوار کی طرح چلیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔