دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آرمی چیف کا عزم

ایڈیٹوریل  اتوار 8 مارچ 2015
دہشت گردوں کی حمایتی قوتوں کو بھی اب یہ سوچنا چاہیے کہ حالات میں بہت زیادہ تبدیلی آ چکی ہے لہٰذا انھیں ملکی سلامتی اور بقا کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیے، فوٹو : فائل

دہشت گردوں کی حمایتی قوتوں کو بھی اب یہ سوچنا چاہیے کہ حالات میں بہت زیادہ تبدیلی آ چکی ہے لہٰذا انھیں ملکی سلامتی اور بقا کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیے، فوٹو : فائل

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ہفتے کو کور ہیڈ کوارٹرز پشاور کے دورے کے موقع پر ایک بار پھر اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ آپریشن ضرب عضب اور خیبر ایجنسی میں ہونے والا آپریشن خیبر ون آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہیں گے، آپریشنز کی کامیابی اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ تمام دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ ہے‘ دہشت گردی کے مکمل خاتمے ہی سے آپریشن کی کامیابی ہے‘ فوجی اور خفیہ معلومات پر مبنی آپریشنز سے بارڈر مینجمنٹ بہتر ہوئی ہے۔

دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے اور ملک میں مکمل طور پر امن و امان بحال کرنے کے لیے حکومت اور فوج میں مکمل طور پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ حکومت اور عسکری قیادت متعدد بار اس عزم کا اعادہ کر چکی ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن ضرب عضب جاری رہے گا۔ پاک فوج نے 15جون 2014ء کو شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا تھا‘ ابتدائی حکمت عملی کے تحت دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے گئے اور وہاں سے شہری آبادی کا انخلا ممکن بنانے کے بعد میران شاہ میں باقاعدہ زمینی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ دہشت گردوں نے ایک عرصے سے قبائلی ایجنسی پر قبضہ کر رکھا تھا۔ انھوں نے اس علاقے میں مضبوط مورچے، پناہ گاہیں حتیٰ کہ بارودی سرنگیں بنانے والی فیکٹریاں بھی تعمیر کر رکھی تھیں۔

شمالی وزیرستان کا علاقہ دہشت گردوں کا سب سے زیادہ مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا یہاں سے نکل کر وہ پورے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے اور حکومت کے لیے خوف کی علامت بنے ہوئے تھے۔ شمالی وزیرستان انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے اس صورت حال کے تناظر میں بعض قوتوں نے یہ پروپیگنڈا عام کر رکھا تھا کہ اس علاقے میں آپریشن کرنا ایک مشکل امر ہے اگر ایسا کیا گیا تو اس سے بڑے پیمانے پر حکومت کا جانی اور مالی نقصان ہو گا اور دہشت گردوں کا کچھ بھی نہ بگڑے گا لہٰذا بہتر اور محفوظ راستہ یہی ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جائیں۔

دہشت گردوں کو بھی بخوبی اس امر کا ادراک تھا کہ ملک کے اندر ان کے حمایتیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اثر و رسوخ کی مالک ہے لہٰذا وہ حکومت پر دباؤ ڈال کر ان کے خلاف آپریشن نہیں ہونے دے گی، اس صورت حال کے تناظر میں وہ خود کو محفوظ سمجھتے اور یہ گمان کرتے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دہشت گردی کی کارروائیاں کر کے حکومت کو جھکانے اور اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ حکومت میں شامل بعض سیاسی قوتوں کا بھی یہی خیال تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے بجائے مذاکرات کا راستہ اپنانا ہی زیادہ بہتر ہے اور ایسا کیا بھی گیا۔

دہشت گردوں سے مذاکرات کے متعدد دور ہوئے مگر انھوں نے کسی بھی صورت حکومتی رٹ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ دباؤ بڑھانے کے لیے دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید تیزی لے آئے۔ پاک فوج نے جب آپریشن ضرب عضب شروع کیا تو اس نے بڑی تیزی سے کامیابیاں حاصل کیں اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ اسلحہ ساز فیکٹریوں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو تباہ کر دیا اور وہ دہشت گرد جنہوں نے ملک بھر میں خوف کی فضا قائم کر رکھی تھی اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ علاقوں کی جانب فرار ہو گئے بہت سے تو سرحد پار کر کے افغانستان بھاگ گئے۔

پاک فوج نے جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے دوران پاکستان میں القاعدہ کے سربراہ عدنان الشکری الجمعہ سمیت القاعدہ کے متعدد رہنماؤں اور غیر ملکی جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کیا۔ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد عدنان الشکری شمالی وزیرستان سے بھاگ کر جنوبی وزیرستان میں چھپ گیا تھا۔ آپریشن ضرب عضب سے دہشت گردوں کو بھاری نقصان پہنچا اور فوج نے شمالی وزیرستان میں میر علی‘ میران شاہ‘ دتہ خیل‘ بویا اور دیگان سمیت بڑے علاقے جو دہشت گردوں کا مضبوط گڑھ سمجھے جاتے تھے، کو ان سے آزاد کروا لیا۔

فوج نے آئی ڈی پیز کے مسئلے کو بھی بڑی حکمت عملی اور مہارت سے حل کیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ سال دسمبر میں پشاور کور ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ شمالی وزیرستان کے متاثرین کی واپسی اولین ترجیح ہے انھوں نے متعلقہ حکام کو متاثرین کی واپسی کے لیے تیاریوں کی ہدایت بھی کی تھی۔ اب ہفتے کو کور ہیڈ کوارٹرز پشاور کے دورے کے موقع پر انھوں نے کہا کہ بے گھر افراد کی واپسی کا عمل مارچ کے وسط میں شروع ہو جانا چاہیے اس سلسلے میں تمام اداروں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی ضروری ہے۔ آئی ڈی پیز کی واپسی کی ہدایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فوج شمالی وزیرستان میں اپنے آپریشن میں کامیاب ہو چکی ہے اور جلد آباد کاری اور بحالی کا عمل شروع ہونے سے اس علاقے کی رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں گی۔

یہ اطلاعات بھی منظرعام پر آ چکی ہیں کہ دہشت گرد شمالی وزیرستان سے نکل کر ملک کے مختلف علاقوں میں چھپ گئے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیاں کر کے اپنی قوت کا اظہار کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر اب وہ پہلے کی نسبت بہت کمزور ہو چکے ہیں اور ویسا خطرہ نہیں رہے جس نے حکومت کی نیندیں اڑا رکھی تھیں۔ دہشت گردوں کی حمایتی قوتوں کو بھی اب یہ سوچنا چاہیے کہ حالات میں بہت زیادہ تبدیلی آ چکی ہے لہٰذا انھیں ملکی سلامتی اور بقا کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیے تا کہ ملک میں امن و امان کی صورت حال کو یقینی بنایا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔