مفاہمتی سیاست کے اسرار

ظہیر اختر بیدری  اتوار 8 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہمارے ملک کے موروثی سیاست دانوں کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی سجادہ نشینی کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے اس نیک کام کے لیے انھیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پرتے ہیں، کیا کیا حربے استعمال کرنے پڑتے ہیں اس کا مشاہدہ اہل فکر بڑی باریک بینی سے کرتے رہتے ہیں۔ جب سے موروثی سیاست موروثی اقتدار کے خلاف آوازوں میں شدت آ رہی ہے، موروثی سیاست کرنے والی سیاسی اشرافیہ پریشان تو ہے لیکن مایوس نہیں بلکہ نئے نئے حربے استعمال کر رہی ہے۔

ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنما بڑی ہوشیاری سے باری باری اقتدار پر براجمان رہنے کے لیے ایسے خوبصورت داؤ پیچ استعمال کر رہے ہیں جنھیں بادی النظر میں سمجھنا مشکل ہے اور بے چارے عوام کی تو ان ہتھکنڈوں پر نظر ہی نہیں جاتی، ماضی قریب میں سیاسی اشرافیہ نے اقتدار کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے جو سیاسی اصطلاح وضع کی ہے اس کا نام ہے ’’مفاہمتی سیاست‘‘ جس کا مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ جمہوریت میں جو اختلاف رائے پیدا ہوتا ہے اور جسے ہماری اعلیٰ مرتبت اشرافیہ ’’جمہوریت کا حسن‘‘ کہتی ہے اس کی گندگی اور سائیڈ ایفیکٹس کو چھپانے کے لیے مفاہمتی سیاست کے نام سے ایسا کھیل شروع کیا گیا ہے جس کا واحد مقصد اقتدار پر اپنے قبضے کو کمزور ہونے سے بچانا ہے۔

پچھلی حکومت نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا وہ کارنامہ انجام دیا کہ اس کی تعریف و توصیف کا سلسلہ برسوں چلتا رہا، جس کا واحد مقصد عوام کی توجہ اس شاطرانہ کھیل سے ہٹا کر ایک ایسے کارنامے کی طرف مبذول کرانا تھا جو اصل میں کارنامہ نہیں بلکہ سیاسی نااہلی، سیاسی قدروں کا مذاق ہے۔ 67 سال میں پہلی بار کسی حکومت نے اپنی آئینی مدت پانچ سال پوری کی ہے۔

یہ بات قابل فخر نہیں بلکہ قابل شرم ہے کیوں کہ جمہوری سیاست میں انتخابات جیت کر اقتدار میں آنے والی جماعت کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرے لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیے کہ الیکشن جیت کر اقتدار میں آنے والی جماعت ٹھیک سے سانس بھی پوری طرح لینے نہیں پاتی کہ اس کے خلاف سازشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ اقتدار سے باہر رہنے والی جماعتیں اقتدار کے لیے 5 سال انتظار کرنے کی زحمت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتیں۔

اسی بد دیانتانہ طرز عمل کی وجہ سے اقتدار میں آنے والی جماعت کے لیے سال دو سال بھی سکون سے گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس جمہوری اختلاف رائے میں کبھی عوامی مفاد کا کوئی دخل نہیں ہرا۔ برسر اقتدار جماعت کی ساری توجہ ساری توانیاں کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار پر صرف ہوتی ہیں اور اپوزیشن کے لیے اس لوٹ مار کو 5 سال برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی مسئلے کو بہانا بنا کر ہنگامہ کھڑا کرنا اور حکومت سے جان چھڑانے کی سبیل کرنا اپوزیشن کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔

1977ء میں زیڈ اے بھٹو کے خلاف الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگا کر جو تحریک چلائی گئی اس تحریک کی اتحادی وہ 9 معروف سیاسی جماعتیں تھیں جو نو ستاروں کے نام سے جانی جاتی تھیں، یہ 9 ستارے بھٹو کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے دینا نہیں چاہتے تھے۔ اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ 1977ء میں امریکا بھی بھٹو حکومت کا ہر قیمت پر خاتمہ چاہتا تھا، یوں یہ تحریک اس طرح دو آتشہ بن گئی کہ نہ صرف بھٹو کو اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا بلکہ پھانسی کے پھندے تک جانا پڑا۔

9 ستاروں کا خیال تھا کہ بھٹو کو ہٹانے کے بعد اقتدار بڑی آسانی سے ان کی جھولی میں آ گرے گا لیکن بلیوں کی لڑائی سے تیسرے نے فائدہ اٹھا لیا اور بلیاں منہ دیکھتی رہ گئیں، جو بلیاں سیاسی شرم و حیا سے عاری تھیں، وہ فوجی آمریت کی حصہ دار بن گئیں۔ یوں 9 ستاروں کو 10 سال تک اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ اس سے قبل ایوب خان کی آمد کے بعد بھی سیاسی جماعتوں کو اپنے سینے پر دس سال تک صبر کا پتھر رکھنا پڑا۔

سیاسی جماعتوں کی اقتدار کے لیے بیتابی کا انجام جنرل مشرف کی دس سالہ حکومت کی شکل میں سامنے آیا اور اس سے قبل بھی دو بار بے نظیر کی حکومت سیاسی رقابتوں کا شکار بنی اور تین بار نواز شریف سیاسی رقابتوں اور سیاسی جماعتوں کا شکار ہوئے، یہ ایسے تازیانے تھے جس کی پوٹ نے ہمارے موجودہ سیاست دانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ آپس میں لڑنا جھگڑنا چھوڑ دیں اور مل بانٹ کر کھانے کا راستہ نکالیں۔ یہ راستہ ہمارے ذہین سیاست دانوں نے ’’مفاہمتی سیاست‘‘ کی شکل میں نکال لیا۔

پچھلی حکومت کا سارا عرصہ بھاری بلکہ اربوں کی کرپشن کے الزامات میں گزرا، اس کے علاوہ بھی مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی، جرائم کی بھرمار، ایسے سنگین مسائل تھے کہ اگر اپوزیشن چاہتی تو زرداری حکومت کا دھڑن تختہ کر سکتی تھی لیکن نواز شریف چونکہ زرداری کی مفاہمتی پالیسی کے اسرار کو سمجھ چکے تھے اس لیے موصوف نے قومی اور جمہوری مفاد کی خاطر فرینڈلی اپوزیشن کی راہ اپنائی، جس کے نتیجے میں عظیم کارنامہ آئینی مدت پوری کرنے کا ظہور میں آیا، جس کا پروپیگنڈا اتنی شدت سے کیا گیا کہ مفاہمتی سیاست کرنے والوں کے اصل مقاصد اس پروپیگنڈے کی دھول میں گم گئے اور عوام حیرت سے اس تاریخی کارنامے کو دیکھتے رہے۔

2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آئی اور ترکے میں وہ سارے مسائل کے ساتھ اپنی نااہلی بھی لائی، اگر اپوزیشن چاہتی تو حکومت سے بیزار عوام کے ذریعے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی تھی لیکن بار بار کے تجربات نے ہمارے سیاست دانوں کو یہ شعور بخشا ہے کہ جب دو بلیاں مکھن کے لیے لڑتی ہیں تو بھلا تیسرے فریق کا ہوتا ہے۔ سو لگ یہی رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اگر کوئی آسمانی سلطانی نہ ہو تو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا دوسرا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔

اس شاندار مفاہمتی سیاست میں عمران خان اور طاہرالقادری نے بڑی کامیابی سے کھنڈت ڈالی تھی اور لگ یہی رہا تھا کہ حکومتِ وقت اب گئی کہ تب گئی۔ حکمرانوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور محسوس یہ ہو رہا تھا کہ حکومت اب گئی کہ جب گئی۔ برسر اقتدار جماعت کے اکابرین ایک طرف بالادست طاقت کا بار بار دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے تو دوسری طرف 11 ستارے پارلیمنٹ میں دھونی رما کر یہ مالا جپ رہے تھے کہ مار دیں گے، مر جائیں گے، تیسری قوت کو اندر نہیں آنے دیں گے۔ یہ کام اگرچہ جمہوریت کی سربلندی کے نام پر کیا جا رہا تھا لیکن اس کے پیچھے وہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کا فلسفہ کارفرما تھا اور ہر سیاسی اہلکار کا چہرہ مفاہمتی سیاست کی دھول میں اٹا ہوا تھا۔ اگر عمران اور قادری عقل و شعور اور سیاسی پختگی سے کام لیتے تو اور کچھ ہو نہ ہو حکمرانوں کا بہرحال دھڑن تختہ ہو سکتا تھا۔

بلاشبہ مفاہمتی سیاست قابل تعریف ہو سکتی ہے جب اس سیاست کی پشت پر عوامی مفادات کارفرما ہوں، عوام کی زندگی میں بہت تبدیلی لانے کا عزم ہو، اگر مفاہمتی سیاست کا مقصد محض موروثی اقتدار کی حفاظت اور باریوں کا کھیل ہو تو یہ سیاست جلد یا بدیر 1789ء کے انقلاب فرانس سے ٹکراتی ہے اور سیاسی اشرافیہ کا حشر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا انقلاب فرانس میں ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔