- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
کیا ہم بھی بھارت بنتے جارہے ہیں؟
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق پاکستان میں کم از کم 40 ملین (چار کروڑ) افراد بیت الخلاء کی سہولیات سے محروم ہیں اور اِس عدم سہولیات کا خمیازہ سب سے زیادہ خواتین، بچوں اور بزرگ افراد کو بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ خبر اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی مہیا کردہ اعداد وشمار کی بنیاد پر شائع کی گئی ہے، جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھلے آسمان تلے مثانے اور معدے صاف کرنے کی وجہ سے تعفن اور گندگی میں شدید اضافہ ہورہا ہے جس کے انتہائی منفی اثرات بچوں پر پڑ رہے ہیں۔
یونیسف کی اس رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ کھلے آسمان تلے رفع حاجت کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی بچوں کی بڑھوتری کے عمل کو متاثر کررہی ہے اور بچوں کے قد اور وزن میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو پارہا۔ یعنی بچے چھوٹے قد کے اور کمزور رہ جاتے ہیں جس وجہ سے ان میں بیماریوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
دو سال قبل ورلڈ ٹوائلٹ ڈے پر منعقد ایک سیمینار میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں نکاسی آب کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے گلیاں اور محلے غلاضت اور کیچڑ سے بھر جاتے ہیں، جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریاں، مثلا ٹائیفایڈ، ملیریا، ڈائریا، تپ دق، خسرہ وغیرہ ہر سال کم از کم 40 ہزار بچوں کی جان لیتی ہیں۔ یہ اعداد وشمار دیکھ کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ شدید قسم کے دوغلے پن کا شکار ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ 150 کے لگ بھگ معصوم، پیارے بچوں اور نوجوانوں کی شہادت کے بعد تو ہمارے ملک میں اعلانِ جنگ کیا جاتا ہے اور یہ کرنا بھی چاہیے تھا لیکن ہر سال مرنے والے ان 40 ہزار کے لگ بھگ اتنے ہی پیارے، ننھے منے بچوں کی موت کے بعد کسی کے کانوں پر جوں تک کیوں نہیں رینگتی؟ میں نہیں کہتا کہ دہشت گردوں کے خلاف اعلانِ جنگ نہ کیا جائے یا ملکی دفاع کے لئے ساز وسامان نہ خریدا نہ جائے، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا صرف گولیوں اور بموں سے مرنے والے ہی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں؟ وہ بچے جو آلودگی اور گندگی کی وجہ سے ناقابلِ علاج بیماریوں کا شکار ہوکر ہزاروں کی تعداد میں ہر سال موت کا شکار ہوتے ہیں ان کے حق میں کوئی آواز کیوں نہیں بلند کرتا؟ کوئی حکومت قومی ایمرجنسی لگانے کا اعلان کیوں نہیں کرتی ہے؟ اپنے لئے پرتعیش مراعات حاصل کرنے والے نام نہاد غریب پرور سیاستدانوں کے زبانوں پر تالے کیوں پڑجاتے ہیں؟
میرا تو یہ خیال ہے کہ اگر حکومت لوگوں کی بنیادی ضروریات پر توجہ دے اور شہریوں کی مدد سے بڑے سماجی مسائل حل کرنے کی کوشش کرے، انہیں بہتر سولیات فراہم کرے، ان کی صحت اور بہبود کا خیال رکھے تو اِس ملک میں ناکردہ گناہوں کی سزا پانے والوں میں بہت حد تک کمی آسکتی ہے۔
اس افسوس ناک معاملے کا ایک اور پہلو، جو ہمارے مجموعی طرز فکر کا آئینہ دار بھی ہے وہ یہ کہ ہم دوسروں کی غلطیاں نکا لنے، ان کی کمزرویاں نمایاں کرنے اور ان پر ہنسنے میں ہم ید طولی رکھتے ہیں۔ لیکن اپنے گھر کو درست کرنے کی نہ ہم میں سکت ہے اور نہ ہی سنجیدگی۔ یوں سمجھئے کہ بعض معاملات میں ہم لوگ دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت کی زندہ، جیتی جاگتی تصویربن جاتے ہیں۔
کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ بھارت میں موجود کروڑوں افراد کی غربت کی داستانیں سنا کر خود کو اور دوسروں کو خوش، جبکہ بھارتیوں کو ناراض کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہمارے بہت سارے ’’غیرت مند محبانِ وطن‘‘ بھارتیوں کو طعنے دیتے ہیں کہ اجی تمہارے ملک میں تو لوگوں کو باتھ روم اور ٹوائلٹ تک میسر نہیں ہیں اور تم بات کرتے ہو مریخ پر جانے کی، وغیرہ وغیرہ۔
اس بات سے انکاری نہیں کہ بھارت میں کروڑوں افراد کو بیت الخلا کی سہولت واقعی میسر نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت اور انڈونیشیا میں کھلے آسمان تلے رفع حاجات کرنے والوں کی تعداد پاکستان سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ وہاں کے وزیراعظم نے اقتدار میں آتے ہی لاکھوں ٹوائلٹ بنا کر اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے عزم کا اظہار کردیا ہے۔ ’’سواچ بھارت ابھیان‘‘ نامی سرکاری مہم شروع کرتے ہوئے شری نریندر مودی نے بھارت کے شہریوں کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ وہ چند سالوں میں بھارت کو صاف ستھرا ملک بنائیں گے۔ میں پوچھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں اس سلسلے میں کونسے اقدامات اُٹھائے گئے یا پھر اُٹھائے جارہے ہیں؟
ایسا لگتا ہے کہ ہم شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر مسلسل سنگباری کررہے ہیں حالانکہ ہمیں چاہیے یہ کہ دوسروں کے مسائل نمایاں کرنے اور ان کا مذاق اڑانے کے بجائے خود احتسابی کا عمل شروع کرکے اپنے مسائل حل کرنا شروع کردیں۔ لیکن ایسا کرنا ہمیں پسند نہیں ہے۔ ہماری اس بے عملی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک کے دیہات، قصبوں اور شہروں کی گلیاں اور محلے کیچڑ اور غلاضت میں لتھڑے جارہے ہیں اور یہی حقیقت یونیسف کی رپورٹ نے واضح کی ہے۔
اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے گئے اور سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی ، نوجوانوں کی تنظیموں اور رفاعی اداروں کی مدد سے عملی اقدامات اُٹھا کر اس عوامی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو کوئی بعید نہیں کہ چند سالوں میں ہم بھارت اور انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ غلیظ ترین ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر آجائیں گے۔
کیا آپ بلاگر کی رائے سے متفق ہیں؟
- ہاں (91%, 48 Votes)
- نہیں (9%, 5 Votes)
53 : کل ووٹرز
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔