مہذب قوموں کے جہلا

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 12 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی جہل اور ناخواندگی کے اندھیروں میں پھلتی پھولتی ہیں جہاں علم اور شعور کی روشنی ہوتی ہے وہاں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی پھل پھول سکتی ہے نہ پیدا ہوسکتی ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے۔ پسماندہ ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان ملکوں میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔

خاص طور پر قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں حصول علم کو عقائد کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں جہل کا عالم یہ ہے کہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے بہ جبر روکا جاتا ہے بلکہ پولیوکی ٹیموں پر قاتلانہ حملے کیے جاتے ہیں۔ اب تک پولیو کے بے شمار رضاکار جاہلوں کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔

ہمارے ملک میں خودکش حملوں کا کلچر اس قدر مستحکم ہوچکا ہے کہ سیکڑوں نوجوان اپنی باری کے انتظار میں رہتے ہیں کہ جنت میں جانے کا یہ ایک آسان وسیلہ ہے۔ آج سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے کے لوگ بھی اس قدر با شعور تھے کہ عقائد کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر اپنا ذہن بناتے تھے۔ حضرت غالب کا یہ شعر اس شعور کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

مغربی ملکوں میں شرح تعلیم سو فی صد ہے مغربی ملکوں میں نہ قبائلی نظام موجود ہے نہ جاگیردارانہ نظام باقی ہے۔ مغربی تہذیب کو دنیا کی ترقی یافتہ تہذیب کہا جاتا ہے مغربی ملکوں کے عوام پسماندہ ملکوں کے جہل کا تمسخر اڑاتے ہیں اور مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو حیوانیت سے تعبیر کرتے ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے میڈیا میں تواتر کے ساتھ اس قسم کی خبریں دیکھ کر عقل حیران ہے کہ مختلف مغربی ملکوں کے عوام جن میں خواتین اور مرد دونوں شامل ہیں ’’داعش‘‘ میں شامل ہونے کے لیے شام اور عراق جارہے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ خود اپنے ملکوں میں رہتے ہوئے دہشت گردی کے نیٹ ورک کا حصہ بن رہے ہیں، مغربی ملکوں میں انسان کی آزادی اور انسانی حقوق کو عقیدہ کا درجہ حاصل ہے، آزادیٔ فکر وافکار اور انسانی حقوق کو ترقی یافتہ تہذیب کا جزو لازمی سمجھا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا داعش جیسی کٹر مذہبی انتہا پسند تنظیم میں مغربی ملکوں کے عوام کی شرکت آزادی اور انسانی حقوق سے تعلق رکھتی ہے؟

اگر اس قسم کے واقعات اکا دکا ہوں تو انھیں کسی فرد یا چند افراد کی حماقت یا ایڈونچر کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اس قسم کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہونے لگیں تو نہ یہ انسانی حماقت کہلاسکتے ہیں نہ ایڈونچر کے زمرے میں آسکتے ہیں۔

ہمیں نہیں معلوم کہ مغربی ملکوں کا دانشور طبقہ اس خطرناک رجحان پر پریشان ہے یا نہیں اور اس کے اسباب کا جائزہ لے رہا ہے یا نہیں لیکن پسماندہ ملکوں کے دانشور اس رجحان پر حیران بھی ہیں، پریشان بھی۔ عموماً ایک مذہب کے لوگ بوجوہ اپنا مذہب ترک کرکے دوسرا مذہب قبول کرلیتے ہیں لیکن یہ بات یہ رویہ اس لیے تشویشناک نہیں ہوتے کہ اس قسم کی مذہبی تبدیلی پر امن ہوتی ہے ۔

اس سے انسانوں اور انسانیت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن ترقی یافتہ ملکوں کے تعلیم یافتہ اور با شعور عوام تسلسل کے ساتھ داعش جیسی مذہبی انتہا پسند اور خطرناک حد تک دہشت گرد تنظیم میں سیکڑوں کی تعداد میں شامل ہونا شروع کریں تو اس کی سنگینی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ خطرناک عالمی صورت حال اور دہشت گردی کے پھیلاؤ کے تناظر میں یہ مسئلہ بھی محض مغربی ملکوں کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ بن جاتا ہے۔

اس سنگین رجحان کی مکمل تحقیق اس لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی انسانی تہذیب کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہی ہے دنیا اس بلائے عظیم سے ہر قیمت پر چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہے ایسی صورت حال میں اگر ترقی یافتہ ملکوں کے عوام لگاتار دنیا کی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم میں شامل ہونے لگیں تو اس رجحان کی سنگینی کا اندازہ کرنا مشکل نہیں رہتا۔ سب سے پہلے اس حقیقت کا جاننا ضروری ہے کہ یہ رجحان پیدا کیوں ہوا اور فروغ کیوں پا رہا ہے۔

ہمارے بعض ’’مفکرین‘‘ اس رجحان کی مذہبی تاویل کرتے ہوئے اسے دوسرے مذاہب پر اسلام کی برتری سے ہی تعبیر نہیں کرتے بلکہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ قیامت سے پہلے ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ اس قسم کی تاویلوں سے تو اختلاف نہیں کیا جاسکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیم سے اسلام کا کوئی تعلق ہوسکتا ہے؟

دنیا بھر کے معروف علما اور مذہبی اکابرین دہشت گردی کو اسلام دشمنی کہتے ہیں حتیٰ کہ خانہ کعبہ کے امام بھی دہشت گردی کو مذہب دشمنی کا ہی نام دیتے ہیں اس تناظر میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو اسلام سے جوڑنے والے محترم حضرات کیا اسلام دوستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟

مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں کو اپنی تہذیب و تمدن کا بے حد خیال رہتا ہے اگرچہ مشرق مغربی تہذیب کے بہت سارے عناصرکو تسلیم نہیں کرتا لیکن پوری دنیا کی جو ایک مشترکہ تہذیب و ثقافت ہے اگر اس کو خطرہ لاحق ہوجائے تو یہ ساری دنیا کے عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ مل جل کر اس خطرے کا مقابلہ کریں، پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں ترقی یافتہ ملکوں کو یہ برتری حاصل ہے کہ اس کے پاس وسائل کی بھرمار ہے۔ وہ فوجی اور اقتصادی دونوں شعبوں میں اس قابل ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرے۔

پچھلے دس گیارہ سالوں میں مغربی اتحادیوں کو جو ناکامیاں ہوئیں اس کی سب سے بڑی وجہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا فقدان ہے اور دنیا بجا طور پر حیرت زدہ ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور اور اس کے طاقت ور اتحادی وسائل کی بہتات کے باوجود دہشت گردی سے نمٹنے میں ناکام کیوں ہیں؟

کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا خصوصاً امریکا کی خفیہ ایجنسیاں آسمان کے اوپر سے اور زمین کے نیچے سے مجرموں کو ڈھونڈ نکالتی ہیں۔ اس حوالے سے اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور قتل کو بطور ثبوت پیش کیا جاتا ہے اس تناظر میں کیا یہ صورت حال ایسی نہیں بن جاتی کہ خود مغربی ملکوں کے تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ داعش جیسی تنظیم میں شامل ہونے کے لیے تڑپ رہے ہیں اور ان ملکوں کے اندر دہشت گردی کے لگاتار واقعات ہورہے ہیں اور مغربی ملکوں کے باشندے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔

ہمیں نہیں معلوم کہ نان ایشوز پر تحقیق کے لیے سرگرم ادارے اس اہم ترین بلکہ دنیا کے سب سے خطرناک مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں یا نہیں لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ اگر مغرب نے اپنی روایتی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا تو پھر سیکڑوں، ہزاروں سال میں تشکیل پانے والی تہذیب کے چیتھڑے بھی اسی طرح اڑیںگے جیسے خودکش حملہ آوروں کے اڑتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔