احتساب

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 13 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ایک اطلاع کے مطابق انٹیلی جنس اینڈ لینڈ ریونیو نے متحدہ عرب امارات میں کروڑوں روپوں کی مالیت کے فلیٹ گھر اور دیگر معاملات میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی فہرستیں تیارکرنا شروع کردی ہیں اور غیر ملکی رئیل اسٹیٹ کمپنیوں سے پاکستانی سرمایہ کاروں کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔

پاکستان کے بعض حلقوں کی طرف سے ایک عرصے سے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے اور اس بات کی نشان دہی کی جارہی ہے کہ دبئی سمیت کئی مغربی ملکوں میں بالادست طبقات نے اربوں روپوں کی جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔

اس پس منظر میں انٹیلی جنس اینڈ لینڈ ریونیو کا یہ اقدام قابل تعریف ہے۔ ہمارے ملک کے مختلف وہ طبقات جو اعلیٰ سطحی اثر و رسوخ کے مالک ہیں 67 سالوں سے بے لگام لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔ ان طبقات میں بڑے تاجر ،بڑے صنعت کار، بیوروکریسی کے علاوہ حکومتوں اور اپوزیشن کے رہنما بھی شامل ہیں۔

جن کے بارے میں یہ شکایات عام ہیں کہ ان محترمین نے سوئس بینکوں سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں کروڑوں ڈالر غیر قانونی طور پر جمع کررکھے ہیں اور اربوں ڈالر کی جائیدادیں بھی خریدی ہوئی ہیں۔ جن کی ماضی میں نشان دہی ہوتی رہی ہے۔

اس سے قبل اعلیٰ سطح بیوروکریسی کی کرپشن کے خلاف تحقیقات کی خبریں بھی میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں بیوروکریسی کی طاقت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی ابتدائی دہائیوں میں بیوروکریٹس صدر اور وزیراعظم کے عہدوں تک پہنچ چکے تھے۔

بیوروکریسی کے طاقت ور ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ برسر اقتدار طبقات کرپشن کی وارداتیں بیوروکریسی کی مدد اور رہنمائی کے ذریعے ہی انجام دیتے ہیں۔ اہل اقتدار اور اہل سیاست کی اس کمزوری کی وجہ بیوروکریسی  اس قدر طاقت ور ہوجاتی ہے کہ اس کے سامنے حکمران طبقات بے بس ہوکر رہ جاتے ہیں یہ صورت حال صرف پاکستان ہی میں نہیں ہے بلکہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں بھی  ہے۔

کرپشن بھی حصہ بقدر جثہ ہوتی ہے چونکہ ہماری سیاست کے آئی کون جاگیردار، وڈیرے اور بڑے صنعت کار ہیں جن کے کاروبار ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اربوں کی سرمائے میں یہ حضرات کھیلتے رہتے ہیں سو جب وہ کرپشن کی طرف آتے ہیں تو پھر ان کی نظر اربوں پر ہوتی ہے۔ چھوٹی موٹی کرپشن ان کے لیے باعث توہین ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست اور حکومت میں بھی ایماندار لوگ موجود ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔

کرپشن کی ایک قسم نہیں بلکہ بے شمار قسمیں ہیں۔ اشیا صرف کی قیمتوں میں بلا جواز اضافہ بھی کرپشن کی ایک قسم یا شکل ہے ہمارے ملک میں چونکہ سیاست دان بڑے بڑے کاروباری لوگ بھی ہیں اور صنعت کار بھی اس لیے مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے بھی کروڑوں کی کرپشن کا ارتکاب کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ایک ایک سیاست دان کئی کئی شوگر ملوں کا مالک ہے ۔

مشرف دور میں چینی کی قیمت میں اضافے کے اسکینڈل کی ذمے داری بھی اس طبقے پر عائد ہوئی کیونکہ کاروبار کے ساتھ ساتھ یہ طبقہ قانون ساز اداروں پر بھی قابض ہے، اس لیے اس طبقے کے خلاف کسی قسم کا احتساب آسان نہیں۔ آج کل ملک میں گنے کی قیمتوں میں کمی کے خلاف کاشتکار احتجاج کررہے ہیں ، شوگر ملوں کے مالکان کا تعلق برسر اقتدار طبقات سے ہے۔

لہٰذا کاشتکاروں کا گنے کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ لٹکا ہوا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو یا کسی اور چیزکی قیمتوں میں اضافہ چونکہ ان اضافوں سے عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں اس لیے اس بالواسطہ کرپشن کے خلاف بھی اینٹی کرپشن اداروں کو فعال ہونا چاہیے۔ قیمتوں میں اضافے کے خلاف عدلیہ نے بار بار حکم صادر کیے لیکن کاروباری طبقے نے عدلیہ کے حکم کو بھی ہوا میں اڑادیا۔

اس حوالے سے دودھ، دہی کی قیمتوں میں اضافے اور عدلیہ کی کوششوں کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ کرپشن ایک ایسا عالمی مسئلہ بھی ہے جو براہ راست سرمایہ دارانہ نظام سے جڑا ہوا ہے اور جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے کرپشن کا خاتمہ خیال است و محال است و جنوں کے علاوہ کچھ نہیں لیکن بھاری اربوں روپوں کی کرپشن سے وہ سرمایہ اوپر ہی اوپر ہضم کرلیاجاتاہے جو عوام کی ملکیت ہوتا ہے اور جسے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہونا ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی سرشت ہی میں کرپشن موجود ہے لہٰذا اسے محض سطحی یا وقتی اقدامات سے روکا نہیں جاسکتا۔ اس عذاب سے عوام کو نجات دلانے کے لیے ایک منظم اور منصوبہ بند تحریک کی ضرورت ہے اور یہ تحریک بھارت کے انا ہزارے قسم کے لوگ ہی چلاسکتے ہیں۔

جن کے سیاسی مقاصد نہ ہوں۔پاکستان کا شمار خطے کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں 40 فی صد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اس غربت کی ایک بڑی وجہ اربوں نہیں بلکہ کھربوں کی کرپشن ہے۔ دو کھرب سے زیادہ قرض جو اشرافیہ نے بینکوں سے لیا تھا معاف کرالیاگیا یا ہڑپ کرلیا گیا۔

یہاں بھی اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بینک قرضوں کے نادہندگان کا کیس اعلیٰ عدالتوں کی میزوں تک پہننے کے باوجود بے نتیجہ ہی رہا۔ اگر اس ملک میں کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوا تو بلا امتیاز ایک سخت آپریشن کی ضرورت ہے جس میں برسر اقتدار اور اپوزیشن کے تمام ارکان کے اثاثوں کی تحقیق کی جائے اور ناجائز اثاثوں کو بحق عوام ضبط کرلیاجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔