جنگل کی آگ ہمارے کرۂ ارض کو ٹھنڈا کررہی ہے؟

مرزا ظفر بیگ  اتوار 15 مارچ 2015
جنگل میں لگنے والی آگ شدت پکڑتی ہے تو پہلے وہ کرۂ ارض سے قدرتی نباتات کو جلاکر صاف کردیتی ہے جس کے بعد زمین کا رنگ بدل جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

جنگل میں لگنے والی آگ شدت پکڑتی ہے تو پہلے وہ کرۂ ارض سے قدرتی نباتات کو جلاکر صاف کردیتی ہے جس کے بعد زمین کا رنگ بدل جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

 حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک اسٹڈی کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ جنگل میں لگنے والے آگ جب شدت اختیار کرتی ہے تو اس کے شعلے اور دھواں سورج سے زمین پر پڑنے والی سورج کی شعاعوں کو منعکس کردیتے ہیں، یعنی انھیں واپس خلا میں بھیج دیتے ہیں جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ میں قدرتی طور پر کمی واقع ہوجاتی ہے اور ہماری زمین نسبتاً ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔

یہ اسٹڈی امریکی ریاست میساچوسٹس کے وڈز ہول ریسرچ سینٹر کے مقام پر کی گئی تھی جہاں کے ماہرین نے کافی غور وخوض کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ جب جنگل میں لگنے والی آگ شدت پکڑتی ہے تو پہلے وہ کرۂ ارض سے قدرتی نباتات کو جلاکر صاف کردیتی ہے جس کے بعد زمین کا رنگ بدل جاتا ہے۔ رنگ کی اس تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سورج سے زمین پر آنے والی ان شعاعوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے جو ہماری زمین سے ٹکرانے کے بعد منعکس ہوکر واپس خلا میں جاتی ہیں۔

ان سائنس دانوں نے یہ بھی دیکھا کہ شمالی امریکا میں لگنے والی جنگل کی آگ کے بعد اس خطے کے کئی مقامات کافی ٹھنڈے ہوگئے۔ اسی طرح سائبیریا کے جنگلات نے بھی یہی کام کیا اور شمالی یورپ کے جنگلات بھی اسی انداز سے گلوبل وارمنگ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔جنگل کی آگ کا تصور خاصا ہول ناک ہے۔

اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنگل میں جب آگ لگتی ہے تو ایک قیامت مچادیتی ہے۔ جنگل کی آگ بڑی بے دردی اور تیزی سے جنگل کی قدرتی دولت کو تو چاٹ ڈالتی ہی ہے، ساتھ ہی اس کی بے تحاشا شدید گرمی چند گھنٹوں میں ہی جانوروں کی آبادیوں کو بھی نیست و نابود کرڈالتی ہے اور وہ قیمتی جانور جو ہمارے کرۂ ارض کا زیور ہیں، لمحوں میں صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔

اس قیامت خیز آگ کی وجہ سے دھوئیں کے ایسے خوف ناک اور سیاہ گاڑھے بادل پیدا ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سارے منظر اوجھل ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ حصہ کسی تاریک دنیا میں واقع ہے جہاں روشنی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سب کی وجہ سے شدید قسم کی آلودگی پھیل رہی ہے جو ایک طرف تو ہماری دنیا کو گلوبل وارمنگ میں مبتلا کررہی ہے اور دوسری جانب اس کی وجہ سے کرۂ ارض پر انسانی حیات کو بھی ختم ہونے کے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگل کی یہ آگ ہمارے لیے اور ہماری زمین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، کیوں کہ یہ خوف ناک اور بھیانک آگ ہمارے کرۂ ارض کو ٹھنڈا کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات ہم سبھی کو عجیب لگے، مگر یہ سچ ہے کہ جنگل کی آگ ہمارے قدرتی ماحول کو متوازن رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے۔

ہمارے ان محققین اور سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگل کی یہ آگ اپنے ساتھ تباہی اور بربادی بھی لاتی ہے جیسا کہ شمالی امریکا کے جنگلات میں ہورہا ہے، یہی صورت حال یوریشیا (یورپ و ایشیا) میں بھی ہے، اس کے باوجود اسی آگ کی وجہ سے زمین کا درجۂ حرارت کم ہوسکتا ہے۔

اوپر بیان کردہ جنگل کی آگ ہماری زمین کی نباتات کو جلاکر راکھ کررہی ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں کی شادابی بھی ختم ہورہی ہے، مگر یہ بھی ایک سائنسی حقیقت ہے کہ ہمارے یہی علاقے سورج کی شدید حرارت اور تپش کو بڑی مقدار میں منعکس کرکے واپس خلا میں بھیج رہے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہی جنگل کی آگ ہماری زمین یا ہمارے لینڈ اسکیپ کو تبدیل کررہی ہے اور اس کی وجہ سے برف کو زیادہ سے زیادہ علاقے پر چھانے کا موقع مل رہا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ سورج کی زیادہ حرارت یا شعاعوں کو واپس منعکس کررہے ہیں۔درختوں کے گہرے سبز پتے بھی سورج کی حرارت اور تپش کو جذب کرتے ہیں اور اسی کی وجہ سے برف سے ڈھکے ہوئے میدان اور علاقے انعکاس کا کام زیادہ تیزی سے کرتے ہیں۔

اس اسٹڈی کی قیادت ڈاکٹر برینڈن راجرز نے کی تھی اور اس کا اہتمام میساچوسٹس کے وڈز ہول ریسرچ سینٹر میں کیا گیا تھا۔اسٹڈی کے دوران ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ جن علاقوں میں جنگل کی آگ نے زیادہ شدید تباہی مچائی، ان میں زمین کے ٹھنڈے ہونے کے اثرات بھی زیادہ دکھائی دیے۔

مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قدرتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے عمل کے مقابلے میں زمین کے ٹھنڈا ہونے کا یہ عمل لگ بھگ دگنا رہا۔ان نتائج کی روشنی میں موسم کے حوالے سے اب سائنس دانوں کو اپنی پیش گوئیوں میں تبدیلی کرنی پڑے گی۔ جیسے جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج بڑھے گا، ویسے ویسے کرۂ ارض کی آب و ہوا بھی تبدیل ہوگی۔

ڈاکٹر راجرز نے کہا:’’اب آب و ہوا کو جانچنے اور اس پر نظر رکھنے والے سائنس داں اپنے ماڈلز میں گلوبل وارمنگ اور جنگل کی آگ کے اثرات کے تعلق کو ڈھونڈیں گے۔ گلوبل فائر کے موجودہ ماڈلز ان کے اثرات کو نظرانداز کرتے ہیں اور یہ حضرات شمالی علاقوں کے جنگلات میں لگنے والی آگ کا تعلق آب و ہوا کے گرم ہونے سے جوڑتے ہیں۔

اب ہمیں اپنے انداز فکر کو بدلنا ہوگا اور موسم کی تبدیلی میں درختوں کی اصل نمائندگی کو بھی دیکھنا ہوگا۔اور مذکورہ بالا معلومات کو سامنے رکھ کر جنگل کی آگ کا وہ کردار دیکھنا ہوگا جو وہ ہماری زمین کو ٹھنڈا رکھنے میں ادا کررہی ہے، اسی حوالے سے ہمیں اپنی پالیسی بدلنی ہوگی اور ان کے مطابق اپنے فیصلوں میں بھی تبدیلی کرنی ہوگی۔

گویا ہمیں جنگل کی آگ پر قابو پانے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی، تاکہ اس موسمی اور ارضی صورت حال پر قابو پایا جاسکے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں یہی تاثر عام ہے کہ جنگل کی آگ گلوبل وارمنگ کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ہے ، کیوں کہ اس آگ کی وجہ سے ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بہت بڑی مقدار ہمارے پورے کرۂ ارض کے موسم میں شامل ہوتی ہے جس کے مضر اثرات ہماری زمین کے ماحول پر بھی پڑتے ہیں۔ جنگل کی اس آگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاہ کالک ہماری زمین کو ڈھک سکتی ہے اور اس کے بعد یہ سورج کی حرارت کو بھی اپنے اندر جذب کرسکتی ہے جس سے موسموں میں تبدیلی کے آثار بڑھ جاتے ہیں۔

اس موضوع پر ریسرچ کرنے والے ماہرین نے ان مقامات پر جہاں سورج کی روشنی یا حرارت نے اپنا جلوہ دکھایا تھا، ان مقامات پر ‘albedo’ اثرات بھی دیکھے، وہاں زمین کے بدلے ہوئے رنگ بھی دیکھے اور دھوپ کی تباہ کاریوں کے ساتھ جنگل کی آگ کی حشر سامانیاں بھی ماہرین نے نوٹ کیں اور پھر انہی ماہرین نے یہ نتیجہ بھی نکالا کہ ان علاقوں میں خاص طور سے موسم سرما کے سرد مہینوں میں جنگل کی آگ نے یہاں کرۂ ارض پر سب سے زیادہ سرد اثرات ڈالے اور یہاں کا موسم گرم نہ ہوسکا۔

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ الاسکا اور کینیڈا کے جنگلات میں پائے جانے والے وہ تمام درخت سیاہ کالک سے ڈھکے ہوئے تھے جنہیں جنگل کی آگ نے نہایت شدت سے جلاکر خاکستر کردیا تھا۔ مگر یہ کالک زمین کے لیے مفید ثابت ہوئی ہے۔ اس کا انہوں نے سیدھا سادہ سا مطلب یہ نکالا کہ جنگل کی آگ کرۂ ارض کی آب و ہوا کو بہت زیادہ ٹھنڈا کررہی ہے۔

شمالی یورپ اور سائبیریا میں جہاں Scots Pineاور larch کے درخت بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، یہاں کی آب و ہوا دیگر مقامات کے مقابلے میں 69 فی صد کم زور تھی۔ Scots Pineاور larch صنوبر کی قسمیں ہیں جو عمارتی لکڑی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ یہ لکڑی بہت مضبوط ہوتی ہے۔

ماہرین اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں:’’اس کا بنیادی سبب جنگل کی آگ کی وجہ سے ان نباتات کا خاتمہ ہے جنھوں نے پوری زمین کو ڈھک رکھا تھا۔ جب نباتات صاف ہوگئی تو یہاں کھلے حصوں پر زیادہ برف باری ہوئی اور ہر طرف جہاں درختوں کی حکم رانی تھی، وہاں برف ہی برف نظر آنے لگی۔

اسی لیے ماہرین نے اپنا حساب کتاب لگانے کے بعد یہ انکشاف کیا کہ شمالی امریکا کے جنگلوں میں لگنے والی آگ یہاں کی آب و ہوا کو لگ بھگ 6واٹ فی مربع میٹر تک ٹھنڈا کرسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوریشیا میں جنگل کی آگ یہاں کی آب و ہوا کو 1.9واٹ فی مربع میٹر تک ٹھنڈا کرسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنگل کی آگ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے باعث گلوبل وارمنگ کو نہایت مناسب حد تک توازن میں رکھ سکے گی۔‘‘

ڈاکٹر راجرز اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے:’’ہمارے نتائج اس بات کا کھلا ثبوت فراہم کررہے ہیں کہ دو براعظموں سے آگ سے متعلق آب و ہوا کا جو فیڈ بیک ہمیں ملا ہے، وہ یقینی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگل سے لگنے والی آگ کے اثرت ہماری زمین کے لیے مثبت علامات ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارا کرہ گلوبل وارمنگ سے کسی حد تک محفوظ رہ سکتا ہے۔‘‘

مویشی ہمیں گلوبل وارمنگ سے بچاسکتے ہیں
ہوسکتا ہے ہمارے قارئین کو یہ بات عجیب لگے، مگر یہ سچ ہے کہ متعدد مویشی جب اپنی خوراک ہضم کرتے ہیں تو میتھین نامی گیس کی بڑی مقدار پیدا کرتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کی بڑی وجہ ہے۔

تاہم ماہرین حیاتیات نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ جس انداز سے مویشی میدانوں اور چراگاہوں میں گھاس چرتے ہیں، اس طریقے میں تھوڑی بہت تبدیلی کرنے کے بعد ہم گایوں کو اس قابل کرسکتے ہیں کہ وہ مٹی میں اس گیس کو تلاش کرکے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم کرسکتی ہیں۔

ان ماہرین نے ایک ٹیکنیک بھی استعمال کی تھی جسے انہوں نے adaptive multi-paddock grazing management کا نام دیا۔ اس طریقے میں چھوٹے سائز کے میدان اور چراگاہیں استعمال کرنا شامل تھا اور ایسے میدانوں یا چراگاہوں کو کم وقت کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد ان میدانوں یا چراگاہوں کو ری کَوَر کرنے یا سنبھلنے کے لیے ایک لمبا وقفہ دیا جاتا ہے جس کے بعد یہ دوبارہ اس قابل ہوتے ہیں کہ جانور اور مویشی ان پر گھاس پھوس چرسکیں۔ اس دوران ان میدانوں میں اگنے والے پودوں کو یہ موقع بھی مل جاتا ہے کہ ان کی جڑیں زیادہ لمبی ہوجائیں اور یہ اپنے ٹشوز میں ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی ذخیرہ کرلیں۔ جب یہ پودے مرجاتے ہیں تو ان میں ذخیرہ کی ہوئی کاربن مٹی کے اندر جاکر پھنس جاتی ہے۔

یہ طریقہ جنگلی جانوروں کے گروہوں کی قدرتی نقل مکانی کی یاد دلاتا ہے جیسے یورپی ہرن، ارنا بھینسا اور دوسرے ہرن وغیرہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔