ہواؤں کو دیتی ہوں خوشبو کا تحفہ

موسیٰ رضا  اتوار 15 مارچ 2015
میری دیکھ بھال سے پودوں اور درختوں پر ایک بار پھر سبزہ لہلہانے لگا، پھول کِھل اٹھے، مہکنے لگے۔ماڈل : جیا بخاری /  فوٹو : ایکسپریس

میری دیکھ بھال سے پودوں اور درختوں پر ایک بار پھر سبزہ لہلہانے لگا، پھول کِھل اٹھے، مہکنے لگے۔ماڈل : جیا بخاری / فوٹو : ایکسپریس

 نہ جانے کون سا لمحہ تھا جو فراغت اور فرصت کے طویل دنوں میں کانٹے کی طرح میرے دل میں چبھا اور مجھے ناکارہ پن کے احساس سے بے تاب کرگیا،’’میرا وجود کس کام کا ہے‘‘ کے الفاظ میرے اندر باہر کے خالی پن میں بھرگئے۔

اداسی، مسلسل اداسی، ایسے ہی ایک اداس دن میری نظر اپنے دل کی طرح کمہلائے ہوئے گھر آنگن کے پودوں پر پڑی اور میں نے انھیں تازگی دینے کا فیصلہ کیا۔ میری دیکھ بھال سے پودوں اور درختوں پر ایک بار پھر سبزہ لہلہانے لگا، پھول کِھل اٹھے، مہکنے لگے۔

یہ تازگی، یہ لہلہاہٹ، یہ خوشبو میرے اندر بہار لے آئی۔ میں خالی جھونکوں کو خوشبو کا تحفہ دے رہی ہوں، آلودگی سے بوجھل ہوا ہو موقع دے رہی ہوں کہ وہ میرے گھر کے آنگن کو خوب صورت بناتے پودوِں اور درختوں کو چھو کر خود کو نکھار لے۔ میں اس شہر، سماج اور دنیا کو خوش بو کا تحفہ دے رہی ہوں، مجھے اپنے ہونے کا جواز مل گیا ہے۔ کتنا حسین ہے یہ احساس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔