لاہور میں چرچ کے باہر خود کش دھماکے

ایڈیٹوریل  پير 16 مارچ 2015
دہشت گردی سے نمٹنا پوری قوم کا مسئلہ ہے اس کے خاتمے کے لیے سب کو آگے آنا ہوگا۔ فوٹو : اے ایف پی

دہشت گردی سے نمٹنا پوری قوم کا مسئلہ ہے اس کے خاتمے کے لیے سب کو آگے آنا ہوگا۔ فوٹو : اے ایف پی

لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں کیتھولک چرچ اور کرائسٹ چرچ کے باہر اتوار کو دو خودکش دھماکے ہوئے۔ ان سطور کے لکھے جانے تک میڈیا کی اطلاعات کے مطابق دہشت گردی کے اس واقعے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت 15 افراد ہلاک اور 48 سے زائد زخمی ہو گئے۔ دھماکوں کے وقت چرچ میں دعائیہ سروس جاری تھی اور پانچ سو سے زائد افراد چرچ میں موجود تھے۔ میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق دو مشکوک افراد نے زبردستی چرچ میں داخل ہونے کی کوشش کی، سیکیورٹی گارڈز نے دونوں کو روکنے کی کوشش کی تو انھوں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا۔

دھماکے کے بعد لوگ مشتعل ہو گئے اور انھوں نے توڑ پھوڑ شروع کردی۔ پولیس نے موقع پر دو مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا لیکن لوگ اس قدر مشتعل تھے کہ انھوں نے دونوں مشتبہ افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر انھیں ہلاک کر ڈالا اور بعدازاں ان کی لاشوں کو آگ لگا دی۔ بہرحال پولیس نے حالات کو قابو کرلیا ہے۔ اس دہشت گردی کے خلاف ملک کے دیگر شہروں میں بھی مظاہرے ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس دہشت گردی کی شدید مذمت کی ہے۔ ادھر دہشت گردی کی اس واردات کے بعد ملک بھر میں مساجد،امام بارگاہوں، گرجاگھروں اور اہم مقامات کی سیکیورٹی سخت کر دی گئی تاکہ دہشت گردی کا کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔

پاکستان میں کمزور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو بڑے تواتر سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 22 ستمبر 2013ء کو بھی دہشت گردوں نے پشاور میں چرچ کو نشانہ بنایا تھا جس میں 127 افراد ہلاک اور 250 سے زائد زخمی ہو گئے تھے تاہم دہشت گرد کثیرالجہتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ وہ ایک جانب اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بناتے ہیں تو دوسری جانب مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور درگاہوں اور حساس اداروں کی عمارتوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ یوں دہشت گرد بڑے منظم انداز میں کام کر رہے ہیں۔ اب وہ لاہور کو بھی نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔

گزشتہ ماہ پولیس لائنز لاہور میں بھی دہشت گردوں کے حملہ سے 8 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ واہگہ بارڈر کے قریب بھی خودکش حملہ ہو چکا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے ایک بار پھر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس کا مقصد ملک میں افراتفری مچانا، فساد برپا کرنا اور امن و امان کی صورتحال خراب کرنا ہے تاکہ ضرب عضب کو ناکام بنایا جا سکے۔

لاہور میں یوحنا آباد مسیحی اکثریتی آبادی ہے۔ یہاں واقعچرچ سے باہر اگر سیکیورٹی گارڈز جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کر کے دہشت گردوں کو گیٹ پر نہ روکتے اور وہ چرچ کے اندر داخل ہو جاتے تو بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہونے کا اندیشہ تھا۔ سیکیورٹی گارڈز نے جان پر کھیل کر کئی جانیں بچا لی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیکیورٹی ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں اور اب تک سیکڑوں سیکیورٹی اہلکار اپنے فرائض کی ادائیگی میں شہید ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کو روکنا ایک مشکل امر ہے کیونکہ یہ بے چہرہ دشمن ہے جس کی شناخت کرنا آسان نہیں، یہ معاشرے میں عام آدمی کی طرح گھومتا پھرتا اور اپنے اہداف طے کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ہی دہشت گردوں کے سہولت کار اور انھیں پناہ دینے والے موجود ہیں۔ یوحنا آباد میں خودکش دھماکا کرنے والے بھی کسی نہ کسی کے پاس ٹھہرے ہوں گے اور انھوں نے نزدیکی کسی مقام پر خودکش جیکٹ پہنی ہو گی۔ خفیہ اداروں کو اس پہلو پر اپنی تفتیش کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں کو قانون کی گرفت میں لایا جا سکے۔ یوحنا آباد خود کش دھماکے کے ایک زخمی عینی شاہد کے مطابق دھماکے سے قبل حملہ آور اس کی دکان پر آیا، اس سے گپ شپ کی اور پھر چرچ کی جانب روانہ ہو گیا۔ اس واقعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے واقعہ سے بچنے کے لیے سیکیورٹی انتظامات تو بہتر بنائے جا سکتے ہیں مگر معاشرے میں گھومتے پھرتے اس بے چہرہ دشمن کو پکڑنا آسان کام نہیں۔

اس مسئلہ پر قابو پانے کے لیے حکومت کو دو کام کرنے ہوں گے، ایک تو یہ کہ انٹیلی جنس کا نظام مربوط بنانا ہو گا، خفیہ اداروں کی کارکردگی جتنی زیادہ بہتر ہو گی، دہشت گردوں کے لیے واردات کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا۔شہروں اور آبادیوں کے داخلی اور خارجی راستوں پر کیمرے نصب کرنے ہوں گے تاکہ آنے جانے والے افراد پر کڑی نگاہ رکھی جا سکے۔ کھلے ناکوں کے ذریعے دہشت گردوں کو پکڑنا خاصا مشکل کام ہے۔ اصل کام خفیہ ہوتا ہے۔

دوسرا مقامی سطح پر عوام کا تعاون حاصل کرنا ہو گا کیونکہ ملکی سطح پر کوئی بھی مشکل مرحلہ یا جنگ میں عوام کے تعاون کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ عوام، پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے مابین رابطہ جتنا مضبوط ہو گا، دہشت گردی پر قابو پانے میں اتنی ہی آسانی رہے گی۔ اخبارات میں یہ تشویشناک خبریں بھی شایع ہوتی رہتی ہیں کہ غیرملکی افراد رشوت کے بل بوتے پر بآسانی اپنے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنا لیتے ہیں جس کے بعد انھیں ملک بھر میں اپنے مقاصد پورے کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں غیرملکیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ایسی اطلاعات منظرعام پر آئی ہیں کہ ان غیرملکیوں میں سے ایک تعداد جرائم اور منشیات کے دھندے میں بھی مصروف ہے۔

کراچی میں ہونے والی وارداتوں کے پیچھے بھی جرائم پیشہ اور لینڈمافیا کے ہاتھ ہونے کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔ کوئٹہ میں بھی ہونے والی بہت سی وارداتوں کے پس منظر میں فرقہ ورانہ عنصر شامل ہونے کے ساتھ ساتھ اسمگلروں کی سازشوں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ شمالی وزیرستان میں جس طرح کامیابی سے پاک فوج نے آپریشن کر کے ایک بڑا علاقہ کلیئر اور دہشت گردوں کا خاتمہ کیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں چھپے ہوئے ان بے چہرہ دشمنوں کو پکڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جائے۔ اگرچہ یہ ایک طویل اور صبرآزما جنگ ہے مگر ملکی سلامتی اور بقا کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔

نائن الیون کی مثال سب کے سامنے ہے کہ اس سانحہ کے بعد امریکا نے سیکیورٹی انتظامات اس پیمانے پر کیے کہ اس کے بعد ایسا کوئی بڑا دہشت گردی کا واقعہ رونما نہیں ہوسکا۔ لندن میں جب مظاہرین نے توڑپھوڑ کی تو پولیس نے بعدازاں ان مظاہرین کو گھروں میں جا کر گرفتار کیا اور حالات کو مستقبل میں بگڑنے سے بچانے کے لیے تندہی سے کام کیا مگر ہمارے ہاں دہشت گردی کا سلسلہ جو ایک عرصے سے جاری ہے ابھی تک قابو میں نہیں آ سکا اور اس کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ نہ مساجد محفوظ ہیں نہ گرجا گھر۔ عبادت گاہ جانا بھی خوف کی علامت بن گیا ہے کہ ناجانے کب کوئی حملہ ہو جائے۔دہشت گردی سے نمٹنا پوری قوم کا مسئلہ ہے اس کے خاتمے کے لیے سب کو آگے آنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔