بیزار کن ہمسائے

کلدیپ نئیر  جمعـء 20 مارچ 2015

ہمارے پڑوسی ممالک بھی عجیب ہیں۔ پاکستان ذکی الرحمن لکھوی کو رہا کرنے کا ارادہ کر چکا ہے۔بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے 2008ء کے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی جس سے ہوٹل تاج میں تقریباً 165 لوگ مارے گئے تھے یہ حملہ گیٹ وے آف انڈیا کے قریب سمندر سے کیا گیا تھا۔ عدالت نے لکھوی کو ناکافی ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا حالانکہ بھارت خاصے ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کا دعویدار ہے۔

بہرحال خواہ جو بھی وجہ ہوبھارتیوں کا خیال ہے کہ انصاف کا مقصد پورا نہیں ہو رہا۔ یہ البتہ ہوا ہے کہ بھارت کی چیخ و پکار نے اسلام آباد کو مجبور کیا کہ لکھوی کو جیل میں ہی رکھا جائے لیکن حکومت آخر کب تک ایسا کر سکتی ہے؟ جب کوئی ثبوت ہی نہیں تو ظاہر ہے کہ اسے بالآخر رہا ہونا ہی ہے۔لگتا ہے کہ پاکستان کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ بھارت کے لیے یہ کس قدر حساس معاملہ ہے۔ اب نئی دہلی کی مایوسی فطری امر ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان کھچاؤ کی ایک اور وجہ بن گئی ہے۔ ادھر اسلام آباد ہمارے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ کوئی نہ کوئی مصیبت بھی پیدا کرتا رہتا ہے۔

بنگلہ دیش کے حالات بھی بہتر نہیں ہو رہے کیونکہ عوام میں اور سیاسی معاملات میں شدت پسندی جاری ہے لیکن سب سے زیادہ اہمیت انتقام لینے کو دی جا رہی ہے اور اس بات کا کوئی خیال نہیں کیا جا رہا کہ حتمی نقصان ملک کا ہی ہو گا۔ لوگوں کے مفاد کو ہر روز سیاسی محاذ آرائی کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے وہاں ایسی چیزیں امن و امان کو تباہ کر رہی ہیں جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

مثال کے طور پر ڈاکٹر کمال حسین کے معاملے کو دیکھئے جن کے خلاف مبینہ طور پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ وہ بنگلہ دیش کے پہلے وزیر خارجہ تھے اس کے علاوہ بھی ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ ان دنوں کی یاد دلاتے ہیں جب مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہا تھا تا کہ بنگلہ دیش کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ اس کے باوجود کمال حسین پر غداری کا شبہ کیا گیا ہے۔

وزیراعظم حسینہ واجد جب اپنے ناقدوں سے انتقام لینے پر آتی ہیں تو کوئی حد حساب نہیں دیکھتیں۔ انھوں نے گرامین بینک کے بانی اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کو بھی ڈرایا دھمکایا۔ یونس نے دونوں بیگمات شیخ حسینہ اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیاء کا متبادل تلاش کرنے کی جرات کی تھی۔ ڈاکٹر کمال حسین پر دست درازی نہیں کی گئی ان کی طرف سے جو مدبرانہ جواب دیا گیا وہ یہ تھا کہ ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ ان کی ذات کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے شرم کا باعث ہو گا اور ان کے لیے بھی جو ایسا کرنا چاہتے ہیں۔

ایک مرتبہ دہلی میں چہل قدمی کرتے ہوئے میں نے شیخ حسینہ سے پوچھا کہ ان کی ڈاکٹر کمال حسین سے کیا مخالفت ہے؟۔ ’’اس نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا‘‘ یہ حسینہ کا جواب تھا۔ ان کی واحد خطا یہ تھی کہ انھوں نے ایک بزرگ سیاستدان اور حسینہ کے والد اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کا ساتھی ہونے کے ناتے حسینہ کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

ڈاکٹر کمال حسین وہ شخصیت ہیں جو مغربی پاکستان کے وزیراعظم زیڈ اے بھٹو کی طرف سے شیخ مجیب کو آزاد کرنے کے بعد شیخ مجیب کے ساتھ لندن گئے تھے ‘بھٹو یہ نہیں چاہتے تھے کہ شیخ مجیب رہائی کے بعد سیدھے نئی دہلی جائیں جس نے بنگلہ دیش کی آزادی میں ان کی مدد کی تھی۔ درحقیقت جب بھٹو نے شیخ مجیب کو رہائی کرنے کی پیشکش کی تو شیخ نے پوچھا کمال حسین کا کیا ہو گا تو بھٹو نے کہا وہ بھی آپ کے ہمراہ جائیں گے۔

ڈاکٹر کمال حسین نے مجھے بتایا تھا کہ چونکہ انھیں اپنی منزل کے بارے میں کچھ علم نہ تھا لہذا انھوں نے گرم کپڑے نہ اٹھائے اور جب پی آئی اے کا طیارہ صرف دو مسافروں شیخ مجیب اور ڈاکٹر کمال کو لے کر لندن ایئر پورٹ پر اترا تو ڈاکٹر کمال کو بڑی سردی لگی اس کے بعد شیخ مجیب اندرا گاندھی کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کرنے سیدھے دہلی پہنچے تاہم یہ الگ کہانی ہے ۔ڈاکٹر کمال حسین لندن میں ہی رہے اور برطانوی لیڈروں سے نوزائیدہ ریاست کو پیش آنے والے مسائل پر بات چیت کرتے رہے۔

شیخ مجیب نے انھیں اپنی طرف سے بات کرنے کا اختیار دیدیا تھا۔ لیکن اب شیخ حسینہ کی طرف سے ڈاکٹر کمال حسین کی ہتک کرنے سے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ وہ ایسا ہی کرتی ہیں انھیں وزیراعظم نریندر مودی سے سیکھنا چاہیے جو اپوزیشن پر خواہ مخواہ چڑھائی کرنے کی کوشش نہیں کرتے مگر اس کے ساتھ ہی اپنی طے شدہ پالیسی کو بھی مضبوطی سے جاری رکھتے ہیں۔ وہ آر ایس ایس سے ملنے والی ہدایات پر خاموشی سے عمل کرتے ہیں تا کہ ہندوتوا پھیلانے کے فلسفہ کی ترویج جاری رہے۔

بھارت میں گرجا گھروں کے خلاف جو کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ دراصل آر ایس ایس کی ’’گھر واپسی‘‘ کی مہم کا ایک ردعمل ہے۔ صرف دہلی میں دو بے حد اہم گرجا گھروں کو تباہ کر دیا گیا لیکن وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی طرف سے مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں آیا اور نہ ہی وزارت داخلہ کی طرف سے کوئی ایکشن لیا گیا ہے جو وفاقی دارالحکومت میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے دار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت خود ہنگامہ آرائی کرنیوالوں کے ساتھ ملی بھگت رکھتی ہے۔ لاہور میں بھی گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ دونوں طرف کی حکومتوں کا اس سے کوئی تعلق ہے لیکن دونوں ملکوں میں بیک وقت ایسا ہونا باعث تعجب ضرور ہے۔ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے لیکن بھارت کے بارے میں کیا کہا جائے گا جو کہ جمہوریت کا دعویدار ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ عیسائی دونوں طرف بے وقعت اقلیتیں ہیں۔بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ اگر وہ ہندو نہ ہوتے تو کرسچین ہونا پسند کرتے۔ وہ عبادت کے لیے جو تقریب منعقد کرتے تھے اس میں گیتا سے پہلے بائبل پڑھی جاتی تھی۔ موجودہ صورت میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہندوؤں کی طرف سے گرجا گھروں کو تباہ کرنے پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔ دارالحکومت میں بعض مسیحیوں نے احتجاجی مارچ کیا لیکن ہندو الگ تھلگ رہے۔ اکثریتی کمیونٹی ہونے کے ناطے یہ ان کا فرض تھا کہ وہ عیسائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے۔ آزاد خیال آوازیں بھی پہلے کی نسبت بہت کم ہیں اور زیادہ تر خاموشی ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے کہا ہے کہ مسیحیوں دوبارہ ہندو بن رہے ہیں کیونکہ انھیں برطانیہ نے 1857ء کی بغاوت کے بعد زبردستی مسیحیوں بنایا تھا۔

شیخ حسینہ اپوزیشن کو قطعاً گوارا نہیں کرتیں تاہم ایک بات ان کے حق میں جاتی ہے کہ وہ سیکولر ازم کے حوالے سے بہت پر عزم ہیں اور یہ بات ڈاکٹر کمال حسین بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن اس سے ان کا آمرانہ انداز حکومت چھپ نہیں سکتا حتٰی کہ ڈاکٹر کمال حسین جیسی شخصیت پر غداری کا الزام لگا دیا گیا حالانکہ ایسا الزام عائد کرنا بذات خود باغیانہ عمل ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔