- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
روایتوں کے شکنجے میں قید معاشرے
21 سالہ سیسا ابو داؤح 6 ماہ پیٹ سے تھی جب 1970 میں اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ گھر میں کوئی اور کفیل نہیں تھا۔ بچی کو جنم دینے کے بعد جلد ہی ابو دعوہ پر آشکار ہوا کہ اپنا اوراپنی بیٹی کا پیٹ پالنے کے لئے جو کچھ بھی کرنا تھا اس نے خود ہی کرنا تھا۔
ناخواندہ ہونے کی وجہ سے کام ڈھونڈنے میں دقت ہوئی۔ روایتوں کے شکنجے میں قید معاشرے میں خواتین کو اتنی آزادی بھی میسر نہیں تھی کہ کھل کر کام کرسکے۔ بھائیوں کی خواہش تھی کہ سیسا دوبارہ شادی کرلے، لیکن وہ اس بات کے حق میں نہیں تھی۔ وہ صرف اپنی بیٹی کی کفالت کرنا چاہتی تھی۔
زندگی کو سہارا دینے کے لئے ابوداؤح نے ایک انتہائی منفرد اور دلیرانہ اقدام اُٹھایا۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ مرد کے بھیس میں کام کرے گی۔ اپنے خاندان والوں کی شدید مخالفت کے باوجود دھن کی پکی سیسا نے مردوں کا بہروپ لینے کے لئے اپنا سر مونڈ لیا اور پگڑی باندھ کر گھیرے دار، کھلے ڈُھلے مردانہ لباس پہن کر بازاروں، کھیتوں، کھلیانوں میں کام کرنے لگی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیسا نے اپنی بیٹی کو بیاہ بھی دیا۔ لیکن شومئے قسمت کہ کچھ ہی عرصے بعد ان کی بیٹی کا شوہر علیل ہوگیا اور کوئی کام کرنے کے قابل نہ رہا۔ حالات دیکھ کر سیسا نے کام جاری رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔
سیسا کا بہروپ اتنا پکا تھا کہ کسی کو گمان تک نہیں گزرا کہ مصر کے شہر لکسر میں چوراہے پر بیٹھا پگڑی اور مردانہ کپڑے میں ملبوس مہارت کے ساتھ لوگوں کے جوتے پالش کرنے والا شخص، کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کرنے والا، سامان ڈھونے والا یا پھر چائے خانے میں مردوں کے بیچ بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف شخص عورت ہے۔ 43 سال بعد جب ان کی کہانی بالاخر کھل کر سامنے آگئی تو اب سیسا 64 سال کی ہو چکی ہے۔
اپنے حالاتِ زندگی کے بارے میں سیسا نے مشہور برطانوی اخبار کو بتایا کہ ’’شوہر کی موت کے بعد میں نے سڑکوں پر بھیک مانگنے کے بجائے بہت سخت کام کرنے کا انتخاب کیا۔ اِس دوران میں نے اینٹوں کی ڈھلائی کی، سیمنٹ کے بیگ اُٹھائے، کھیتی باڑی کی اور لوگوں کے جوتے بھی پالش کئے۔ مردوں کی سخت نظروں سے خود کو بچانے اور روایات کی وجہ سے نشانہ بننے سے بچنے کے لئے میں نے مرد کا بہروپ لینے کا فیصلہ کیا اور اُن کے ساتھ ایسے دیہاتوں اور علاقوں میں کام کیا جہاں لوگ مجھے نہیں پہچانتے تھے‘‘۔
آج سیسا ابودعوہ اپنے قصبے اور ملک کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک ایسی قابلِ فخر ماں کی حیثیت اختیار کرچکی ہے جس نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود دلیری اور ہوشمندی کے ساتھ اپنے خاندان کی کفالت کی۔ اپنے ارادے کی مضبوطی کی وجہ سے مثال بننے والی اس بہادر خاتون نے خود کو خطرے میں تو ڈالا لیکن کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہ کیا، جس پر ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان کی دلیری کے اعتراف میں انہیں مصر کے صدر السیسی نے حالیہ دنوں میں ایک ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے لئے سب سے بڑا اعزاز اپنی زندگی کو اپنے شرائط اور اپنی مرضی کے مطابق جینا ہے۔
آج کل مصر میں عورتیں معاشرتی اور معاشی زندگی میں متحرک کردار ادا کر رہی ہیں، لیکن چار دہائی قبل کے معاشرے پر روایتوں کا سخت پہرہ تھا اور عورتوں کا کام کرنا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پدر شاہی کے مارے معاشروں میں عورتوں کو بعض اوقات انتہائی سخت حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ عورتوں کو کام کرنے سے روکنے میں صرف ناخواندہ طبقہ ہی ملوث نہیں، بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے خاندان بھی فرسودہ پدر شاہی اقدار کا شکار ہیں۔ پچھلے سال شائع ہونے والی ایک چشم کشا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طب کی تعلیم حاصل کرنے والی 50 فیصد لڑکیاں میڈیکل کالج سے فارغ ہونے کے بعد گھر سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے کام نہیں کرپاتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں ملکی قانون کے تحت عورتوں اور مردوں کو ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے باعزت کام کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں، ضروریات اور تعلیم کے مطابق بلا خوف و خطر معاشرے میں متحرک کردار ادا کرسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔