سیاستدان اور سائنسدان

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 27 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ایک میڈیکل ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام 14 ویں 2 سالہ سندھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے معروف سائنسدان ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کو کب یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ پاکستان کی اصل دولت اور اثاثہ نوجوان ہیں، پاکستان صرف اسی صورت میں ترقی کرسکتا ہے جب پاکستانی نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم اور تربیت حاصل کرنے کے کھلے مواقع ہوں۔

ترقی یافتہ ملکوں نے یہ بات پہلے ہی سمجھ لی تھی کہ انھیں اپنے ملک کے قدرتی وسائل سے زیادہ انسانی وسائل پر انحصار کرنا ہوگا یہی وجہ ہے کہ کراچی سے چار گنا چھوٹا ملک سنگاپور جس کے قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اس کا جی ڈی پی پاکستان کے جی ڈی پی سے سیکڑوں گنا زیادہ ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے پاکستان ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جا رہا ہے، اس تنزلی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ کسمپرسی کے عالم میں ہے اور عام آدمی کے بچے اعلیٰ تعلیم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔

پاکستان پسماندہ ملکوں کا وہ بدنصیب ملک ہے، جہاں ایسا دہرا نظام تعلیم رائج ہے جس میں صرف دولت مند طبقے کی اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے پورے مواقع حاصل ہیں اور عام آدمی کے بچے کالے پیلے اسکولوں میں اپنا وقت ضایع کرتے ہیں، ایلیٹ کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اس کرپٹ نظام کا حصہ بن جاتی ہے اس کا تعلق بھی اپنے بڑوں کی طرح ملک کی ترقی عوام کی فلاح و بہبود سے کٹ جاتا ہے۔

اس حوالے سے تعلیم کے شعبے کی حالت زار کا عالم یہ ہے کہ ہزاروں اساتذہ اور ملازمین گھوسٹ ملازمین کی حیثیت سے گھروں میں بیٹھ کر تنخواہ وصول کر رہے ہیں اور تعلیمی ادارے وڈیروں کے مویشی خانوں میں بدل گئے ہیں، ان کو اہل سیاست اپنے جلسوں جلوسوں کو کامیاب بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ملک میں انسانی وسائل کا مثبت استعمال کس طرح ممکن ہے؟

پسماندہ ملکوں کے علاوہ ترقی یافتہ ملکوں میں جو نظام معیشت رائج ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کنونشن کے مقررین نے بتایا کہ دنیا کے 80 فیصد وسائل پر 20 فیصد آبادی کا قبضہ ہے، 60 فیصد آبادی کا گزارا صرف 19 فیصد وسائل پر ہے جب کہ 20 فیصد آبادی صرف ایک فیصد وسائل پر گزارا کر رہی ہے۔ پاکستان میں 850 ملین بچے بغیر ناشتے کے اسکول جاتے ہیں، ایک کروڑ سے زائد بچے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ 5 سال سے کم عمر بچے سالانہ 24 ہزار کے حساب سے موت کا شکار ہورہے ہیں۔

کنونشن کے مقررین نے کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں نئی ایجادات اور مسلسل تحقیق کی وجہ سے دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسا چاول اگایا جا رہا ہے جو وٹامن اے سے بھرپور ہے۔ تحقیق کاروں نے ایسی جینز کا پتہ چلایا ہے جو انسانوں اور حیوانوں کو بوڑھا کرتی ہیں، اب ان جینز کے ذریعے نہ صرف انسانوں کے بڑھاپے پر قابو پایا جائے گا بلکہ بڑھاپے کو نوجوانی میں تبدیل کیا جائے گا۔

اس کنونشن کے شرکا نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے کارناموں کے ساتھ معاشی ناانصافیوں کے جن المیوں کا ذکر کیا ہے ان کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ سائنسدان عوام کے سامنے وہ حقائق وہ پس منظر بھی لائیں جو اس معاشی ناانصافی کا سبب بنا ہوا ہے۔

سائنسدانوں کا یہ سوال بڑا معقول ہے کہ ’’پاکستانی حکمرانوں اور لیڈروں کو کب سمجھ آئے گی کہ پاکستان صرف اس وقت ترقی کرسکتا ہے جب پاکستانی نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع حاصل ہوں گے۔‘‘ کیا پاکستان میں جو طبقاتی استحصال68 سال سے ہو رہا ہے کیا وہ حکمرانوں کی ناسمجھی سے ہو رہا ہے یا طبقاتی استحصال اور میرٹ کی خلاف ورزی سے ہو رہا ہے؟ اس کا جواب یقیناً ہمارے سائنسدان جانتے ہیں لیکن اس ملک میں چونکہ اب تک سچ بولنے کا رواج ہی نہیں بلکہ یہاں سچ بولنا قابل تعزیر ہے اس لیے بے چارے سائنسدان بھی آدھا سچ ہی بولتے ہیں۔

اس کنونشن میں بلاشبہ بڑی جرأت کے ساتھ دولت کی نامنصفانہ تقسیم کے اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں لیکن یہ بات بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ 80 فیصد دولت پر 20 فیصد لوگ کیوں اور کیسے قابض ہیں اور 60 فیصد آبادی صرف 19 فیصد دولت پر کیوں اور کیسے گزارا کر رہی ہے اور آبادی کا 20 فیصد حصہ صرف ایک فیصد وسائل پر کیسے اور کیوں گزارا کر رہا ہے؟

850 بلین بچے بغیر ناشتے کے کیوں اسکول جاتے ہیں اور ہر سال 5 سال سے کم عمر کے 24 ہزار بچے کیوں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں؟ تھر میں ہزاروں بچوں کی بھوک سے ہونے والی اموات کا ذمے دار کون ہے؟ ہمارے سائنسدان یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ہر سال لاکھوں انسان بھوک کی وجہ سے لاکھوں انسان علاج معالجے سے محرومی کی وجہ سے اور لاکھوں حاملہ خواتین زچگی کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ کیا یہ سب حکمرانوں کی ناسمجھی کی وجہ ہو رہا ہے یا نااہلی اور بے لگام لوٹ مار کی وجہ سے ہو رہا ہے؟

پسماندہ ملکوں کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کی نشان دہی کریں اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ سائنسدانوں کی کسی تقریب میں حکمرانوں کی غیر ذمے داری کے ساتھ ساتھ معاشی ناانصافیوں کے اعداد و شمار بھی پیش کیے گئے ہیں۔

ہمارے سائنسدانوں نے بجا طور پر معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت پر زور دیا ہے یہ ایک مثبت نشان دہی ہے لیکن اعلیٰ تعلیم کے حامیوں کے ذہنوں میں بجاطور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام پر اعلیٰ تعلیم کے دروازوں کی بندش محض حکمرانوں کی فروگزاشت یا ناسمجھی ہے؟ یا یہ کوئی گہری سازش ہے جس کا مقصد عوام پر ترقی کے دروازے بند کرنا اور عوام کو اقتدار کی غلام گردشوں سے دور رکھنا ہے؟

نظام تعلیم کی بہتری میں نصاب تعلیم کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے کیا ہمارے سائنسدان اس حقیقت سے واقف نہیں کہ ہمارا نصاب تعلیم نہ صرف ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے بلکہ یہ نصاب تعلیم طلبا میں ذہنی پسماندگی کے علاوہ مذہبی انتہا پسندی کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک میں پھیلے ہوئے 50 ہزار سے زیادہ مدرسوں میں 30 لاکھ سے زیادہ طلبا زیر تعلیم ہیں۔

کیا مدرسوں کا نصاب دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ہے ان مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا میں کتنے فیصد سائنسدان، کتنے فیصد ٹیکنالوجسٹ، کتنے فیصد آئی ٹی کے ماہرین، کتنے فیصد ڈاکٹر، کتنے فیصد انجینئر، کتنے فیصد پروفیسر پیدا ہوں گے؟

اس سوال کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ تیس لاکھ طلبا کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا مدرسوں کا نصاب اعلیٰ تعلیم کی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے؟ یہ سارے سوال اس لیے بھی ناگزیر ہیں کہ مدرسوں کو چلانے والے بھی پاکستانی ہیں اور ان کا وژن بھی ایک ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان ہے۔ ان سوالات کے مثبت جوابات ہی پر ملک کے مستقبل کا انحصار ہے۔

ہمارے سائنسدان جب اعلیٰ تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ان کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم سائنس، ٹیکنالوجی تحقیق اور ایجادات کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر دیوار کی نشان دہی کریں تاکہ ہمارا ملک بھی سنگاپور کی طرح اور مغربی ملکوں کی طرح ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔