بکتربند گاڑیوں کی خریداری، سندھ حکومت سپریم کورٹ کو مطمئن نہ کرسکی

نمائندہ ایکسپریس  جمعـء 27 مارچ 2015
ملک میں جس طرف دیکھو بے ایمانی ہی نظر آتی ہے، لگتا ہے ملک کے حالات ہمارے جانے کے بعد بھی نہیں سدھریں گے،  جسٹس ثاقب نثار فوٹو: فائل

ملک میں جس طرف دیکھو بے ایمانی ہی نظر آتی ہے، لگتا ہے ملک کے حالات ہمارے جانے کے بعد بھی نہیں سدھریں گے، جسٹس ثاقب نثار فوٹو: فائل

اسلام آباد: عدالت عظمیٰ سندھ پولیس کیلیے سربیا سے بکتربند گاڑیاں خریدنے کے مقدمے میں آئی جی سندھ کی تحریری وضاحت سے بھی مطمئن نہیں ہوئی اور ہیلی کاپٹر، فائر بریگیڈ کی گا ڑیاں، بکتربند گاڑیوں کی خریداری کا معاملہ 30 دن بعد زیر سماعت لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں فل بینچ نے سماعت کی۔ سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائک نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے لیے بکتربند گاڑیوں کی خریداری کا معاہدہ ختم ہوچکا جبکہ ہیلی کاپٹر اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی خریداری کا ٹینڈر ابھی نہیں ہوا۔ فاضل بینچ نے نیب سے متعلق شکایات کے مقدمے میں نیب اہلکاروں کے خلاف مس کنڈکٹ کی ادارہ جاتی کارروائی کی تمام تفصیل طلب کرلی۔ سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کیس میں ادارے کی موجودہ انتظامیہ کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ فل بینچ کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ملک میں جس طرف دیکھو بے ایمانی ہی نظر آتی ہے، لگتا ہے ملک کے حالات ہمارے جانے کے بعد بھی نہیں سدھریں گے۔

جائیدادکا تخمینہ لگانے والی کمپنی ہارویسٹرکے نمائندے نے بتایا کہ سی ڈی اے اور ایل ڈی اے کے عدم تعاون کی وجہ سے رپورٹ جمع نہیں کرائی جاسکی۔ عدالت نے کہاکہ سی ڈی اے اور ایل ڈی اے تعاون کریں بصورت دیگر انھیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدالت نے کہاکہ خیبر پختونخوا میں بھی لوگ پولیس کے ظلم سے محفوظ نہیں۔ عدالت نے یہ آبزرویشن پولیس کی ایزا رسانیوں کے واقعات پر لیے گئے از خود نوٹس کیس میں دی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں فل بینچ نے سماعت کی۔ فاضل جج نے کہا کہ انتہائی تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ لوگ سپریم کورٹ کو نجات دہندہ سمجھنے لگے ہیں، روز خطوط کے پلندے ملتے ہیں، شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مسئلہ حل ہوجائے گا لیکن ہم دکھ سے کہتے ہیں یہ کام ہم نہیں کرسکتے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ پولیس خود سے جج بن کر ایف آئی آر خارج کردیتی ہے اورکوئی نہیں پوچھتا کس بنیاد پر ایف آئی آر خارج کی گئی۔ جسٹس جواد نے کہاکہ تھانے کے اندر ایک غریب کی بچی کے ساتھ زیادتی ہو اور ملزمان کو پولیس کلین چٹ دے یا پھر ایک نادار خاتون کے خلاف موٹر چوری کا جھوٹا مقدمہ ہو ہم پولیس کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں اور یہ بساط ہم نے اس مقصدکے لیے بچھائی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ قوانین میں خامیوں کے باوجود اس پر عمل کرنے سے عام آدمی کو تحفظ مل سکتا ہے، پولیس کوکارروائی کے لیے کسی عدالت کی ہدایات کی ضرورت نہیں لیکن سیاست زدہ پولیس غیر جانبدار نہیں رہ سکتی۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق اے مرزا نے بتایا کہ منڈی بہاؤالدین میں لڑکی کے ساتھ زیادتی کے ملزمان کو بری کرنے والے پولیس اہلکاروں کو بھی بری کردیا گیا۔ جسٹس جواد نے کہاکہ وہ غریب کی بچی تھی اور ملزمان بااثر تھے اس لیے بری ہوگئے، اس ملک میں غریب کی بچی کے ساتھ یہی ہوتا ہے لیکن ہم بدمعاشوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ ڈی پی او نے بتایا کہ وہ اس معاملے کی از سر نو تفتیش کریں گے جس پر انھیں دوبارہ تفتیش کی اجازت دے دی گئی۔

جسٹس جواد نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن نہ ہونے سے پولیس کے محاسبے کی کمیٹی بھی فعال نہیں اور ہم خود شکایات سیل قائم نہیں کرسکتے۔ فاضل بینچ نے لکی مروت خیبر پختونخوا میں قتل کے ایک مقدمے میں پولیس ریکارڈ پیش نہ کرنے کا سخت نوٹس لیا اور یہ معاملہ بھی از خود نوٹس کیس کے ساتھ منسلک کردیا۔ جسٹس جواد نے کہاکہ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ خیبر پختونخوا میں یہ قباحت نہیں لیکن وہاں بھی لوگ پولیس کے ظلم سے محفوظ نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔