یمنی کھچڑی ذرا احتیاط سے کھائیے

وسعت اللہ خان  ہفتہ 28 مارچ 2015

جن زیدی شیعوں کے خلاف سعودی عرب اور اس کے خلیجی ساتھی آج یکجا ہیں کبھی یمن پر ہزار برس حکومت کرنے والے یہی زیدی شیعہ سعودیوں اور ان کے اتحادیوں کی آنکھ کا تارہ تھے اور بات بھی زیادہ پرانی نہیں۔جب جمال عبدالناصر نے عرب اتحاد کا قوم پرست جھنڈا اٹھایا تو اس وقت یمن پر امام محمد البدر کی حکومت تھی جسے جمال ناصر کی دشمن تین بادشاہتوں یعنی سعودی عرب، اردن اور ایران (جی ہاںایران)کی سرپرستی حاصل تھی۔

جب کہ امام بدر کی حکومت اکھاڑنے کی قوم پرست تحریک کے سربراہ عبداللہ السلاسل کو جمال ناصر اور سوویت بلاک کی حمایت تھی۔یوں یمن کا قبائلی معاشرہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں شاہ پرستوں اور جمہور پرستوں میں بٹ گیا۔

اس خانہ جنگی میں سعودیوں، اردنیوں اور ایرانیوں کی جانب سے زیدی حکمران کو اسلحہ اور رقم کے بدلے میں ناصر نے ری پبلیکنز کی حمایت میں انیس سو باسٹھ میں یمن میں ستر ہزار مصری فوجی اتار دیے۔

امام بدر نے بھاگ کے ایران کے بجائے سعودی عرب میں پناہ لی۔انیس سو پینسٹھ میں سعودی اور ان کے اتحادیوں نے شاہ پرستوں کی حمایت ترک کرنے میں عافیت جانی اور جون انیس سو اڑسٹھ میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست کے بعد جمال ناصر کے گوڈوں کا پانی بھی خشک ہوگیا اور اس نے بھی اپنے یمنی ویتنام سے مصری دستے واپس بلا لیے۔تاہم یہ ضرور ہوا کہ شمالی یمن پر ری پبلیکنز کی حکومت قائم ہوگئی اور زیدیوں کی ہزار سالہ حکمرانی کا باضابطہ خاتمہ ہوگیا۔

شمالی یمن کے برعکس جنوبی یمن اس زمانے میں برطانیہ کے زیرِ انتظام تھا کیونکہ ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان رابطے کے لیے انگریز کو بحیرہِ قلزم اور بحیرہ ہند کے نکڑ باب النمدب پر واقع عدن کی بندرگاہ درکار تھی۔

مگر انیس سو سڑسٹھ میں لاغر برطانیہ نے بھی اپنا نوآبادیاتی تسلط اٹھانے کا فیصلہ کیا۔یوں عدن سمیت کچھ ساحلی صوبے جنوبی یمن کے نام سے ایک نیا ملک بن گئے اور وہاں قوم پرست مارکسسٹ حکومت برسراقتدار آگئی اور عدن میں سوویت بحری اڈہ بھی قائم ہوگیا۔ انیس سو نوے میں یمن کے دونوں حصے متحد ہوگئے اور متحدہ وفاق کے سربراہ انیس سو اٹہتر سے شمالی یمن پر حکومت کرنے والے صدر علی عبداللہ صالح بن گئے۔

سعودی اور یمنی چپقلش کی تاریخی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔لہذا ہم اس برگد میں الجھے بغیر سیدھے انیس سو چونتیس میں آجاتے ہیں جب دو برس پرانی سعودی حکومت اور یمن کی زیدی امامیہ حکومت کے درمیان موٹی موٹی سرحدی حد بندی طے پائی۔

آسر اور نجران کا یمنی علاقہ سعودیوں نے اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔اس کے عوض یمنیوں کو سعودی عرب میں بلا روک ٹوک آنے جانے، رہنے اور کام کرنے کی اجازت مرحمت ہوئی۔مگر یہ ایک غریب اور امیر کا دوستانہ تعلق تھا۔جیسا تعلق کسی زمانے میں آئرلینڈ اور برطانیہ کا تھا اور جیسے آج کل نیپال بھارت کے لیے ، افغانستان پاکستان کے لیے اور میکسیکو امریکا کے لیے اہم ہے۔یمن چونکہ ایک غیر صنعتی زرعی و چراگاہی ملک ہے لہٰذا اس کا گذر بسر سعودی عرب میں کام کرنے والے لاکھوں کارکنوں کے بھیجے پیسے اور سعودی امداد پر رہا۔گویا سعودی عرب کو چھینک آجائے تو یمن کو نزلہ ہوجائے۔

لیکن یمنیوں اور سعودیوں نے کبھی ایک دوسرے پر سو فیصد باہمی اعتبار نہیں کیا۔یمن آج بھی اپنی فطرت میں ایک آزادی پسند کثیر نسلی جنگجو قبائلی معاشرہ ہے۔یہاں جس نے بھی جس نظریے سے حکومت کی اس نے قبائلی جوڑ توڑ کے بل پر ہی حکومت کی۔سعودی عرب کے برعکس یمنی قبائل وہابیت کی چھتری تلے مجتمع نہ ہوسکے۔

یہاں کی ایک تہائی آبادی زیدی شیعہ ہے اور اس آبادی کی اکثریت بھی شمالی یمن کے سعودی عرب سے ملنے والے دو صوبوں سدہ اور امران میں بستی ہے۔

جب تک ایران میں بادشاہت تھی تب تک سعودیوں کو زیدیوں سے زیادہ شکایت نہیں تھی۔لیکن ایرانی انقلاب کے بعد سعودیوں کو خدشہ ہوا کہ کسی دن ایرانی ان زیدیوں کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں لہذا دل میں ایسا نفسیاتی کھٹکا پیدا ہوگیا کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔جب کہ زیدیوں کو کئی برس سے یہ شکایت پیدا ہوچلی ہے کہ سعودی اسٹیبلشمنٹ ان قبائل کو اپنے مذہبی نظریے پر لانے کے لیے کوشاں ہے۔

سعودیوں نے انیس سو نوے میں شمالی اور جنوبی یمن کے اتحاد کو بھی بادلِِ نخواستہ قبول کیا کیونکہ دو کے مقابلے میں ایک یمن کہ جس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہو منطقی اعتبار سے زیادہ بڑا علاقائی مسئلہ بن سکتا ہے۔

اور جب انیس سو نوے میں متحدہ یمن نے کویت پر قبضہ کرنے والے صدام حسین کی مخالفت سے انکار اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہونے کے باوجود امریکی اتحادی فوج کشی کی حمایت میں ووٹ دینے سے انکار کردیا تو یمن پر گویا دوہرا عذاب ٹوٹ پڑا۔ایک جانب اسے عراق کی مالی مدد سے ہاتھ دھونا پڑا اور دوسری طرف سعودی عرب نے گستاخی کی سزا دینے کے لیے راتوں رات ساڑھے سات لاکھ یمنی کارکنوں کو ملک سے کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔یوں ایک ہفتے میں ہی یمن کی آبادی  پانچ فیصد بڑھ گئی۔

اور جب انیس سو چورانوے میں جنوبی یمن نے وفاق سے علیحدگی کی مسلح کوشش شروع کی تو  جنوبی یمن کے باغیوں کی دامے درمے حوصلہ افزائی کی گئی تاہم علی عبداللہ صالح کی حکومت نے اس بغاوت کو کچل دیا۔اس دوران یمن میں اسی کے عشرے میں دریافت ہونے والے چار ارب بیرل کے تیل کے ذخائر سے دو لاکھ بیرل روزانہ کی پیداوار بھی شروع ہوگئی۔ لہٰذا سعودی عرب کی جانب سے امداد معطل ہونے اور تارکینِ وطن کے نکالے جانے کا دھچکا بھی یمنی برداشت کرگئے۔

یمن کے تیل کی پیداوار ان صوبوں سے آتی ہے جن کی حد سعودی عرب سے لگتی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان انیس سو چونتیس کے سرحدی حد بندی کے معاہدے کی میعاد انیس سو بانوے میں ختم ہوگئی۔

مگر تیل کی دریافت کے سبب دونوں ممالک نے اپنی ایک ہزار میل سے زائد سرحد کی نئی حدبندی سے پہلے ایک دوسرے کے علاقوں پر تاریخی ملکیت کے دعوے شروع کردیے۔ سن دو ہزار میں جدہ سمجھوتے کے تحت سرحدی حد بندی کو بالٓاخر باقاعدہ شکل مل گئی۔

پھر نائن الیون ہوگیا۔القاعدہ بڑی ہوگئی۔سعودی عرب میں جب کریک ڈاؤن ہوا تو القاعدہ شدت پسندوں کو سرحد پار یمن کے پسماندہ ، پہاڑی علاقوں میں پناہ ملنے لگی۔لہٰذا یمن کی صالح حکومت ، سعودی عرب اور امریکا کو بادلِ نخواستہ ایک میز پر آنا پڑا اور امریکی ڈرونز کو بھی جگہ دینا پڑی۔اس دوران زیدی قبائل کی مرکزی حکومت کے ساتھ اس  پر ٹھن گئی کہ ان کی ترقی پر زیادہ وفاقی توجہ نہیں دی جا رہی چنانچہ انھوں نے حسین بدر الدین الہوڑی کی قیادت میں دو ہزار چار میں مسلح جدوجہد شروع کردی۔

سعودی کوششوں سے انیس سو دس میں فریقین میں قومی مصالحتی معاہدہ طے پایا اور یمن کو چھ خطوں کا وفاق تسلیم کیا گیا۔لیکن اگلے برس عرب اسپرنگ کا وائرس یمن تک پہنچ گیا اور علی عبداللہ صالح کی آمرانہ حکومت کے خلاف سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہوئی۔انھیں حکومت چھوڑ کے بغرضِ علاج سعودی عرب جانا پڑا اور ایک سمجھوتے کے تحت اقتدار ان کے نائب عبدالرب منصور ہادی کے حوالے ہوگیا۔

گذشتہ برس ستمبر میں زیدی قبائل نے وفاقی اقتدارمیں حصے داری کے وعدے پورے نہ ہونے کے سبب پھر بغاوت کردی اور دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا اور اب ملک کے بیشتر علاقوں پر ان کا کنٹرول بتایا جاتا ہے۔صدر منصور ہادی بھی اپنے ایک پیشرو امام بدر کی طرح  بھاگ کے سعودی عرب پہنچ گئے ہیں اور سعودی قیادت میں ان کی حکومت کی بحالی کے لئِے مشترکہ عرب فوجی کارروائی جاری ہے جو سعودی عرب کے بقول زیدیوں نے ایرانیوں کی حمایت سے چھین لی ہے۔ حالانکہ زیدیوں کے ساتھ سابق سنی صدر علی عبداللہ صالح کے فوجی حامی بھی مل گئے ہیں اور یہ جدوجہد دراصل ایک اور خانہ جنگی کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

اس وقت یمن ایک ملک سے زیادہ وہ کھچڑی ہے جسے کئی داخلی و خارجی باورچی پکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔یمنی القاعدہ اور یمنی داعش زیدیوں ، سعودیوں اور یمنی اسٹیبلشمنٹ کی مشترکہ دشمن ہے۔سعودی عرب القاعدہ اور داعش کے ساتھ ساتھ ان قوتوں کے مخالف زیدیوں کو بھی کچلنا چاہتا ہے۔

جب کہ سابق سعودی اتحادی علی عبداللہ صالح آج سعودیوں کے خلاف زیدیوں سے مل چکے ہیں۔اور بچارے امریکا کا مفاد بس اتنا سا ہے کہ یمن میں کوئی بھی حکومت کرے مگر دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ میں رخنہ نہ ڈالے۔خلیج تعاون کونسل کے چھ ارکان میں سے پانچ ( سوائے اومان )  سعودیوں کی مدد کر رہے ہیں ۔ مصر اور پاکستان وغیرہ وغیرہ اس لیے سعودی عرب کی سننے پر مجبور ہیں کہ دونوں کے شاہی حکومت سے گہرے تعلقات ہیں۔

پاکستان بالخصوص اس وقت نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی دلدل میں ہے۔ایران ہمسایہ ہے تو سعودی عرب سرپرست۔چنانچہ فی الوقت یہ پالیسی زیادہ بری بھی نہیں  کہ اگر سعودی سالمیت کو خطرہ ہوا تو پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دے گا۔گویا نہ سعودی سالمیت کو یمن سے خطرہ ہوگا اور نہ ہی پاکستان یمنی کچھڑی میں کودنے پر مجبور ہوگا۔فی الوقت تو یمنی سالمیت کو ہی ہر جانب سے خطرہ ہے۔

مگر مشکل یہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم اور پاکستانی حکومت کی اگاڑی اور پچھاڑی کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔یہ کوئی اچھی بات تو نہیں۔

ایک بات تو بتائیے۔اگر کل پاکستان کی بھارت سے جنگ چھڑ گئی تو سعودی دستے کیا لائن آف کنٹرول پر دکھائی دیں گے یا سعودی ایرفورس پٹھان کوٹ پر بمباری کرے گی ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔