چند ساعت پولیس کسٹڈی میں

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 28 مارچ 2015
barq@email.com

[email protected]

ابن انشاء اور ہمارا ماجرا ایک ہی جیسا ہے لیکن ان کا معاملہ تو چودہویں کی رات اور ایک چاند چہرے تک محدود تھا یعنی

کل چودہویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا تیرا

لیکن ہمارا معاملہ ایک تو شاعرانہ کے بجائے خالص پولیسانہ، دہشت گردانہ، صحافیانہ اور نہ جانے کہاں کہاں تک پھیلا ہوا تھا، ابن انشاء کے سامنے تو ایک چہرہ تھا جسے چاند بھی کہہ لیجیے لیکن ہمارے معاملے میں چاند ستارے سورج سیارے حتیٰ کہ مین ہولز تک بات دراز ہو گئی تھی البتہ دونوں معاملات میں ہمارا اور ابن انشاء کا رویہ قطعی سیم ٹو سیم تھا یعنی

ہم بھی وہاں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم چپ رہے ہم ہنس دیے منظور تھا پردہ ’’ترا‘‘

یہ پردہ ذرا بڑا تھا کہ ایک کا نہیں بلکہ پردہ نشینوں سے لڑائی مول لینے کا خطرہ تھا اس لیے چپ ہی رہنا پڑا سچ تو یہ ہے کہ وہ جو ’’چرچا‘‘ کرنے والے تھے وہ بھی یونہی انجان بنے ہوئے تھے ورنہ سب کو معلوم تھا کہ یہ چاند ہے یا کسی کا چہرہ بلکہ یہ تک معلوم تھا کہ اگر چہرہ ہے تو اس پر چیچک کے کتنے داغ ہیں اور اگر چاند ہے تو اس میں کتنی کالی اور بدنما غار گھپائیں اور گھاٹیاں تھیں، بات یہ ہے کہ ہمارے صوبے کے موجودہ آئی جی پی جناب ناصر خان درانی جب سے آئے ہیں کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں چاہے وہ ’’کچھ‘‘ کچھ بھی کیوں نہ ہو، دراصل بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کچھ نہ کچھ یا بہت کچھ یا کچھ کچھ کرنے کی، چاہے وہ کسی ’’کچھ‘‘ کے کچھ لگتے ہوں یا کچھ بھی نہ لگتے ہوں۔

درانی صاحب بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں جو بے کار مہاش کے زمرے میں آتے ہیں، چنانچہ اب کے انھوں نے ایک مرتبہ پھر ہم کسمپرسوں یعنی کالم نگاروں کو بلوا کر بہت کچھ شیئر کرنے کی کوشش کی، ظاہر ہے کہ یہ بہت کچھ جو شیئر کیا گیا پولیس ہی سے متعلق تھا اور پھر اس میں مشہور و معروف دہشت گردی رسوائے عالم کا ذکر نہ آئے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔

حالانکہ ہم بہت پہلے اپنے ایک کالم میں لکھ چکے ہیں کہ یہ جو دہشت گردی ہے اسے اب دہشت گردی جیسے محدود نام سے یاد کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی سمندر کو کوزہ اور دجلے کو قطرہ کہے کیوں کہ دہشت گردی اب ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکی ہے اس سے اتنے لوگوں کی روزی روٹی بندھی ہوئی ہے کہ اگر یہ ختم ہو گئی تو وہ بے چارے کہاں جائیں گے؟

آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

قلندر مومند نے اپنے ایک شعر میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر خدانخواستہ قلندر مومند کی بے وقت وفات ہو گئی تو سارے جہاں کے ’’حسین‘‘ بے چارے کہاں جائیں گے اب وہ وفات پا چکے ہیں تو حسینوں کی دربدری کا عالم صرف ہم ہی جانتے ہیں۔ دہشت گردی کی انڈسٹری اب اتنی پھیل چکی ہے وسیع و عریض ہو چکی ہے کہ اگر کوئی چاہے بھی تو اسے ختم نہیں کر سکتا، بے چاری پولیس کی حیثیت تو اس معاملے میں اتنی ہے جیسے کوئی چیونٹی سے پہاڑ اٹھوانے کی کوشش کرے۔

کبھی کبھی ہم جب موازنہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دہشت گردی اور کرکٹ تقریباً ایک جیسے دکھتے ہیں، کرکٹ کو دنیا کی کوئی طاقت اس لیے ختم نہیں کر سکتی کہ تجارتی کمپنیوں کے لیے اس کے ذریعے پبلسٹی کرنے کی بہت زیادہ گنجائش ہے بلکہ پاکستانی اصطلاح میں صرف کرکٹ ہی ایک ایسا کھیل ہے۔

جس میں اشتہارات اور کمپنیاں اپنی پبلسٹی اور مفادات کے مواقع دیکھتی ہیں۔خیر چھوڑیئے تفصیلات میں جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اب اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ دہشت گردی اب کوئی محدود سی چیز نہیں رہی ہے یہ اب انتظامی یا امن و امان کے دائرے سے نکل کر ایک ایسی انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکی ہے کہ معاشرے میں ایک بھی فرد یا گروہ ایسا نہیں بچاہے جو اس کا کسی نہ کسی شکل میں دانستہ یا نادانستہ، بالواسطہ یا بلاواسطہ،چھوٹا با بڑا شیئر ہولڈر نہ ہو اب یہ مسئلہ بڑی حد تک اقتصادی ہو چکا ہے، یورپ و امریکا کے اسلحہ سازوں سے لے کر کباڑ میں خالی خول اور استعمال شدہ شیل بیچنے خریدنے والے تک اس میں شامل ہو چکے ہیں یعنی

ازمہرتا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو ہرجہت سے مقابل ہے آئینہ

لیکن ہمارا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ بات کہیں سے بھی چلے ہیر پھیر کر پولیس تک پہنچ ہی جاتی ہے کیوں کہ پولیس ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کوڑے دان ہے جہاں ہر گھر ہر گلی کوچے اور ہر سڑک و بازار کا گند لا کر ڈال دیا جاتا ہے یا پیدا کوئی بھی کرے صفائی کی توقع پولیس سے کی جاتی ہے کوئی بھی واقعہ ہو ذمے دار پولیس ہی کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔

پولیس ہی ہمارے نظام کا وہ عضو ضعیف ہے جس پر دنیا بھر کے نزلے آکر گرتے ہیں اور یہ سلسلہ کوئی آج کل سے شروع نہیں ہوا ہے بلکہ حالات کو اس مقام پر لانے کے لیے ہمارے نظام کے کرتا دھرتاؤں نے لگ بھگ ستر سال محنت کی ہے اور اس ’’محنت‘‘ کا نتیجہ یہ ہے کہ آج حکومت اور عوام صرف الگ ہی نہیں ہیں بلکہ باقاعدہ دو دشمنوں کی صورت میں ایک دوسرے کے مقابل ہیں، اس بات کو واضح کرنے کے لیے ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت سے موازنہ کر سکتے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ دوسرے ممالک میں بھی ہو لیکن ہم نے یہاں اور وہاں میں جو سب سے بڑا فرق دیکھا ہے وہ وہاں مذاہب، زبانوں، ذاتوں اور برادریوں کی انتہائی کثرت ہونے کے باوجود ایک چیز ان سب میں مشترک ہے کسی کا تعلق کسی بھی مذہب مسلک فرقے برادری زبان قوم علاقے رنگ و نسل سے ہو آپس میں کتنی ہی نفرتیں کیوں نہ ہوں لیکن ایک نقطہ ایسا ہے جہاں پہنچ کر سب ایک ہو جاتے ہیں اور وہ نقطہ یہ ہے کہ ’’یہ ملک ہمارا ہے‘‘ حکومت ایک قطعی الگ عارضی اور ایک طرح سے مہمان ہوتی ہے اور مہمان کچھ بھی کرے کھائے پیے رہے لیکن وہ میزبان کے گھر کا مالک نہیں بن سکتا۔

یہی رویہ وہاں نہایت طاقت ور شکل میں موجود ہے کہ ہر کوئی اس ملک کو اس کے اداروں کو اس کی املاک اور اس کے اصول و قوانین کو ’’اپنا‘‘ سمجھتا ہے، بہترین قسم کے پارکوں میں سڑکوں پر بہترین پھول درخت اور خوش نما چیزیں موجود ہیں ان کی جگہ پیتل اور تانبے کے چھوٹے بڑے بت مجسمے اور ڈیکوریشن پیسز کھلے عام موجود ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی اسے انگلی بھی لگائے یا پھول توڑے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔