قلعہ بند شہر

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 28 مارچ 2015
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کراچی برسوں سے قلعہ بند شہر ہے۔ یہ شہر 1986 سے ہنگاموں کا شکار رہا ہے۔ پہلے سرسید کالج کی طالبہ بشریٰ زیدی ایک مسافر بردار ویگن کی زد میں آکر جاں بحق ہوئی۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ غوث علی شاہ نے سہراب گوٹھ میں آپریشن کرایا۔ اس آپریشن کے جواب میں علی گڑھ کالونی میں حملے ہوئے اور شہر میں مہاجر پٹھان فسادات پھوٹ پڑے۔

حیدرآباد میں فائرنگ میں اردو بولنے والے افراد کی ہلاکت کے بعد یہ فسادات سندھی مہاجر فسادات کی شکل اختیار کرگئے۔ اس دوران ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے مرکزی حکومت سنبھالی۔ پیپلز پارٹی نے مہاجر قومی موومنٹ کو حکومت میں شامل کیا مگر کراچی میں سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ ٹارگٹ کلنگ بھی فسادات کی شکل اختیار کرگئی۔ پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہونے لگیں، جس سے عام آدمی کی زندگی مشکل میں پڑگئی۔

شہر میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے سے اسٹریٹ کرائمز بڑھ گئے۔ ایم کیو ایم نے لوگوں کو اپنی مدد آپ اور تحفظ کے فلسفے کے تحت سڑکوں پر آہنی گیٹ لگانے کی مہم شروع کی جس پر لوگوں نے اپنے گھروں اور محلوں کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر آہنی گیٹ لگانے شروع کردیے۔ جب شہر میں سڑکوں اور گلیوں پر آہنی گیٹ لگائے جارہے تھے تو پولیس اور ضلعی حکام نے خاموشی اختیار کرلی۔

ان آہنی گیٹوں کے لگنے سے جہاں عام آدمی کو اپنے گھر میں تحفظ حاصل ہوا وہاں سڑکوں اور گلیوں میں چوری اور ڈاکا زنی کی وارداتیں بھی کم ہوگئیں لیکن دوسری جانب سیکیورٹی کے دیگر مسائل پیدا ہوگئے۔ بہت سے لوگوں کے گھروں پر جانے کے راستے بند ہوگئے، خاص طور پر رات کو سڑک سے دور گلیوں میں پہنچنا مشکل ہوگیا۔ کسی ہنگامی صورتحال میں ایمبولینس سروس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں کی آمدورفت میں خلل پڑنے لگا۔ پولیس کی گاڑیوں نے محلوں میں آنا جانا چھوڑ دیا،  خفیہ ایجنسیوں کے اعتراضات سامنے آنے لگے۔

1992 میں کراچی میں سڑکوں اور گلیوں سے آہنی گیٹ ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا، کراچی کے چاروں اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کی نگرانی میں یہ آہنی گیٹ ہٹا دیے گئے اور ان آہنی گیٹوں کا انبار ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر کے احاطوں میں لگ گیا۔ کئی مہینے تک ایجنسیوں کی گاڑیاں کراچی کے محلوں میں گشت کرتی رہیں۔ آپریشن ختم ہوا۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز بڑھنے لگے، ڈاکوؤں نے امیر علاقوں سے لے کر چھوٹے علاقوں تک اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔

دن دھاڑے گھروں میں ڈاکے پڑنے لگے، چوری کی وارداتوں کے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور پھر گاڑیاں اور موٹر سائیکلوں کی چوری اور بندوق دکھا کر گاڑیاں چھیننے کا منظم کاروبار شہر میں نظر آنے لگا۔ شہریوں کو گھروں سے تاوان کے لیے اغوا کیا جانے لگا اور  لوگوں کو بھتے والے گروہوں سے مک مکا کرنے کے مشورے دیے جانے لگے۔

نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد کراچی میں خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس سمیت اہم عمارتوں کے گرد آہنی رکاوٹیں کھڑی ہوگئیں۔ امریکی قونصل خانے سمیت دیگر قونصل خانوں کے تحفظ کے لیے بھی بیریئر اور سیمنٹ کے بلاک نصب کردیے گئے۔ جب آصف علی زرداری صدر بنے تو بلاول ہاؤس کو پہلے کنٹینر اور پھر آہنی دیواروں سے محفوظ کردیا گیا، دیگر سیاسی رہنماؤں اور افسران نے بھی اپنے گھروں کی سیکیورٹی کے لیے آہنی رکاوٹیں کھڑی کرلیں۔ پورے شہر میں بیریئرز لگ گئے۔

بعض مرکزی شاہراہوں پر بھی بیریئرز لگا دیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی سڑکوں اور گلیوں کو بیریئرز اور رکاوٹوں سے بند کردیا گیا۔ جن علاقوں کے لوگ برداشت کرسکتے تھے وہاں سیکیورٹی گارڈ تعینات کیے گئے۔ شہر میں سڑکوں اور گلیوں کو آہنی رکاوٹوں اور بڑے بانس لگا کر راستے بند کردیے گئے۔ کراچی کے بہت سے شہریوں کا کہنا ہے کہ ان آہنی رکاوٹوں اور بیریئرز لگانے سے اغوا اور ڈاکے کی وارداتیں کم ہوگئی ہیں۔ اسی طرح کار چھیننے کی وارداتوں کی شرح میں بھی انتہائی کمی واقع ہوئی۔

بعض سوسائٹیوں میں سڑکیں بند کرکے کار پارکنگ کے لیے جگہ نکالی گئی۔ نوجوانوں کے لیے ان رکاوٹوںکو بنیاد بنا کر کرکٹ و دیگر کھیلوں میں آسانی ہوگئی۔ ان آہنی بیریئرز اور رکاوٹوں کے نقصانات بھی سامنے آنے لگے۔

جب تک ذیلی سڑکوں پر آہنی رکاوٹیں نہیں لگی تھیں تو بڑی سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھنے کے ساتھ ہی ڈرائیور حضرات ان ہی سڑکوں اور گلیوں پر گاڑیاں چلاتے تھے، یوں شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ، شاہراہ قائدین اور شہید ملت روڈ وغیرہ سمیت بہت سی سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ کم ہوجاتا تھا اور ان ذیلی سڑکوں کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور ہنگامی صورتحال میں ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی آمدورفت آسان ہوجاتی تھی جس سے ہنگامی صورتحال میں متاثرہ مقام پر پہنچنا آسان ہوجاتا تھا۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں 60 سال سے زیادہ عرصے تک آباد رہنے والے لوگوں کو خاص طور پر رات کے وقت بیریئرز بند ہونے سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، یہ لوگ رات کے وقت گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں پر اپنے گھروں تک مشکل سے پہنچ پاتے تھے۔ بلاول ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس وغیرہ پر لگے ہوئے بیریئرز سے لوگوں کو خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جب رینجرز نے ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو پر کارروائی کی تو ایم کیو ایم کی قیادت نے نائن زیرو جانے والی سڑکوں پر سے رکاوٹیں ختم کردیں جب کہ باقی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ایسا نہیں کیا۔ کلفٹن میں بلاول ہاؤس کے گرد آہنی دیواروں اور رکاوٹوں کو ختم نہیں کیا گیا۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کو ملنے والی دھمکیوں کی بنا پر یہ حفاظتی اقدامات ضروری ہیں۔ ادھر جوڑیا بازار اور اطراف میں بازاروں میں بھتے کی پرچیاں ملنے اور پنجاب، کے پی کے، بلوچستان اور افغانستان سے آنے والی دھمکی آمیز ٹیلی فون کالز کے بعد تاجروں نے احتجاج شروع کیا۔ مگر یہ کارروائی پورے شہر میں نہیں ہوئی۔ اس کارروائی کے بارے میں عام آدمی میں تشویش پیدا ہوگئی۔

عام آدمی کے سامنے اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے اور لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ اب چوروںاور ڈاکوؤں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات ہوں گے؟ شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا امتحان شروع  ہوا ہے۔ اگر ایجنسیاں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں کرنے، کاریں اور موبائل چھیننے اور گھروں کو نشانہ بنانے والے گروہوں کے خاتمے کو یقینی بناتی ہیں اور عام آدمی کو تحفظ حاصل ہوتا ہے تو پھر سڑکوں سے رکاوٹیں ختم کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا جائے گا، دوسری صورت میں عوام کے ذہنوں میں خدشات بڑھ جائیں گے۔

اس صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا ہوگا جو شہر کے امن کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ شہری ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جدید دور میں شہروں کو قلعہ بند کر کے نہیں رکھا جاسکتا مگر عام آدمی کا تحفظ ریاستی اداروں کی بنیادی ذمے داری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔