23مارچ اور فیڈریشن

جاوید قاضی  ہفتہ 28 مارچ 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جب بھی مارچ آیا میرے قابو میں نہ پھر وہ دل ناشاد آیا۔ یہ ہے وہ مارچ اور اس کا تئیسواں دن جہاں فیڈریشن ٹوٹی بھی تو بنی بھی۔ چلتے ہیں تاریخ کے اوراق میں ان کونوں اور زاویوں میں ان مکاں و زماں کے گزرے برسوں میں کہ کہیں آیندہ کی نسلوں کو اگر جواب نہ ملے سوال تو ملیں۔ یہ بہار تھی یا خزاں تھی جو ہر مارچ کو آتی جاتی ہے۔

خیر 7 سال بعد ہم یہ دن اسی جوش و خروش سے اس بار منا سکے جس کی کوکھ سے اگا تھا 14 اگست۔ کلدیپ نیئر لکھتے ہیں خاکسار تحریک کے محافظوں نے 1990ء کو اس دن دو لیڈروں کو سلامی دی تھی ایک تھے محمد علی جناح اور دوسرے تھے فضل الحق جو شیر بنگال کے نام سے جانے جاتے تھے۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے اس عظیم اجلاس کی صدارت دو لوگوں نے ایک ساتھ کی تھی۔ یہ تھا وہ دن جب مسلمانان ہند ایک الگ وطن کی بالآخر بات کر بیٹھے۔ اس قرارداد کا غور سے متن تو پڑھیے، وہ جو وطن بننا تھا مسلمانان ہند کا، وہ فیڈریشن تھی یا کہیں اس سے بھی آگے جا کے یوں کہئے کنفیڈریشن تھی۔ (آئین کا طالبعلم ہونے کے ناطے میں یہ جانتا ہوں الفاظ یا اصطلاح معنی نہیں رکھتے ان کے اندر چھپی ہوئی اسپرٹ معنی رکھتی ہے) اس لیے بہت سی فیڈریشن دنیا میں کنفیڈریشن سے بھی زیادہ اپنے اندر اکائیوں کو اختیار دیتی ہیں اور اس کے برعکس کنفیڈریشن نہیں تو صرف نام کی ہوتی ہیں۔

ہمارے ہاں اگر آئین کا سلسلہ چلتا رہے تو ہم بحیثیت فیڈریشن ہندوستان سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں لیکن بقول شاعر ’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘‘ ہم نے 1971ء میں بہت بڑا سبق سیکھا، جب فیڈریشن کے انحراف کی پاداش میں ہم بکھر گئے۔ اور پھر ہم اب بھی بکھرے پڑے ہیں۔

ہمارے کچھ نادان دوستوں نے کہا کہ مذہب ہمیں ایک کرتا ہے اور ہم نے ریاست اور مذہب کو گڈمڈ کر دیا اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب آپ کے سامنے ہے۔ وہ 24 مارچ تھی جب ہوشو شیدی نے چارلس نیپئر کی فوجوں سے لڑتے 1843ء کو دابو کے میدان میں ’’مرسوں مرسوں پر سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کہتے اپنی جان کا نذرانہ دیا تھا پھر یہاں فرنگی نے اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔ ہمارے لیے وہ ہوشوشیدی وہ مقام نہ پا سکا، وہ جیسے ہماری شاندار تاریخ کا حصہ نہ تھا۔

اس کے برعکس غوری اور غزنوی ہمارے ہیرو بن بیٹھے جنھوں نے مندروں کو لوٹا تھا۔ ایڈوانی یہ موقع کیسے چھوڑتے اپنے ہاتھوں سے تو انھوں نے بابری مسجد پر وار کیا، ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کیا۔ غور سے دیکھیں پھر مسخ شدہ تاریخیں کس طرح آیندہ نسلوں کو آلودہ کرتے ہوئے انھیں اپنی ڈگر سے ہٹا دیتی ہیں اور پھر بلاول بھٹو نے ہوشوشیدی کو یاد کیا تو لوگ اور چڑ گئے کیونکہ اس کے پیچھے اس کے والد کی پرفارمنس پڑی تھی لیکن اس کرپشن میں ہوشو شیدی تو بے قصور ہے۔

اسے اپنا مقام اس فیڈریشن کی تاریخ میں ملنا چاہیے۔ وہ بھی 23 مارچ تھی 1931ء کی جب بھگت سنگھ لاہور کی سینٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکایا گیا تھا وہ کوئی کانگریس کا نہیں تھا، وہ تو بس فرنگی کو یہاں سے نکالنا چاہتا تھا جس طرح آگے جا کے چی گویرا سامراج کو مسلح جدوجہد کے ذریعے ہٹانا چاہتا تھا۔ ہم نے بھگت سنگھ کو کبھی اپنا ہیرو نہیں مانا لیکن آج 84 سال بعد جب لاہور میں پہلی مرتبہ اس کو یاد کر کے موم بتیاں جلائی گئیں تو مجھے اب یقین ہونے لگا ہے کہ ہم جیسے اپنی تاریخ میں واپس جھانک کے دیکھنا چاہتے ہیں، اسے درست کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہماری نسلوں کو اپنے ہیروز کو دیکھنے کا موقع ملے۔

بھگت سنگھ کبھی بھی مودی والی سیاست کے پیروکار نہ ہوتا۔ وہ تو اس خطے کی بات کرتے۔ وہ اس زمین کے تھے پنجاب کے بیٹے تھے جس طرح ہوشو سندھ کا بیٹا تھا۔وہ بھی 20 مارچ تھی جب حیدرآباد سینٹرل جیل میں سوریہ بادشاہ کے نام سے پہچان رکھنے والے پیرپگارا کو 1943ء میں پھانسی دی گئی تھی۔ وہ کہاں دفن ہیں، انگریز سامراج آخر تک یہ بات نہ بتا سکا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ سندھیوں نے بھی کبھی اس آزادی کے متوالے کو اپنا ہیرو نہیں مانا کیونکہ وہ سبھاش چندر بوس کو اپنا رہبر سمجھتا تھا۔

وہ فرنگی کو مسلح جدوجہد سے ہٹانا چاہتا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کے فیڈریشن کا ایک ہیرو تھا اور اسے یہ مقام ملنا چاہیے۔ ہاں لیکن سندھی اب آہستہ آہستہ تاریخ پر پڑی مٹی کی تہیں اتارنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی تاریخ کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی 23 مارچ 1971ء تھی جب ذوالفقار علی بھٹو نے ڈھاکا کے انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں شیخ مجیب سے ملاقات کرنے کے بعد کہا تھا کہ پاکستان کے دو وزیراعظم ہونے چاہئیں۔ یہ تب تھا جب شیخ مجیب اور اس کی عوامی لیگ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب الگ وطن کی بات کرو۔ میرے والد اس دن ڈھاکا میں تھے۔

24 مارچ کو جب شیخ مجیب سے ملے تو شیخ مجیب نے میرے والد کو کہا کہ ’’قاضی صاحب جنرل یحییٰ سے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ اب یہاں پر ملٹری آپریشن شروع ہونے والا ہے اور واپس آپ اپنے وطن کو چلے جاؤ۔‘‘ جب میرے والد نے شیخ مجیب کو کہا ’’تو کیا ہم اب ایک وطن کے شہری نہیں رہے۔‘‘ شیخ مجیب نے کہا ’’نہیں۔‘‘تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے، وہ شیخ مجیب جو سائیکل پر چڑھ کر 1947ء کو نعرے لگاتا تھا ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘ وہ کیسے پھر اچانک ایک رات میں علیحدگی پرست ہو گیا۔ وہ جی ایم سید جس کو جناح کے بغیر چین نہیں آتا تھا وہ کیسے علیحدگی پرست ہو گیا۔

وہ اکبر بگٹی جس نے قلات اسمبلی میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی بات کی تھی وہ کیسے غدار بن گیا۔ ولی خان کیسے غدار بن گیا۔ یہ سوال میرا نہیں ہے یہ سوال تاریخ کا ہے اور اس کا جواب بھی فیڈریشن دیگی۔ تاریخ دیگی۔ ہالی ووڈ کی بنائی فلم میں جب ایک مسلمان ولبھ بھائی کے منہ پر تھوکتا ہے تو ولبھ بھائی تھوک کو اپنے منہ سے صاف کرتے ہوئے کہتا ہے ’’اچھا ہے کسی مسلمان نے اپنا غصہ تو نکالا۔‘‘ہم نے پھر 11اگست کی جناح کی تقریر سے انحراف کیا۔

اسے ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ سے غائب کیا اور پھر ہم نے مذہب میں پناہ لے لی تا کہ اس ملک کو آئین نہ دینا پڑے تا کہ اس ملک میں انتخابات نہ کروانے پڑیں۔ قرارداد مقاصد کے خلاف اگر اس وقت اسمبلی میں کوئی بولا تو بنگالی ممبران اسمبلی تھے۔ بنگالی جمہوریت کے دولائی تھے۔ وہ شکست 1953ء میں صوبائی انتخابات میں دی گئی مسلم لیگ کو اس کو اس وقت ہوش کے ناخن لینے تھے۔

مگر پھر بیوروکریسی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پھر بالآخر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پھر سرد جنگ والے سامراج نے فیڈریشن کو مل کر کمزور کیا۔چلو اچھا ہے آج یہ خبر تو ملی کہ زرداری صاحب نے گیارہ اگست والی جناح کی تقریر کے متن کو نصاب کا حصہ بنانے کے لیے سندھ حکومت کو سفارش کر دی اور سندھ کے وزیر تعلیم نے آن ریکارڈ یہ بات کر بھی دی۔ اب یہ بھی دیکھیں کہ بلاول ہاؤس کے اطراف ایک کلو میٹر چوکور سرکاری خزانے سے کھڑی دیواریں کب گرائی جائیں گی۔

کب سندھ کے لاکھوں ایکڑ کی نیلامی بلڈر مافیا کے لیے بند کی جائے گی۔ بلاول ہاؤس کے اطراف میں پورے بنگلے خالی کروا کے انھوں نے بلاول ہاؤس میں شامل کر دیے ہیں اور اس طرح کراچی اور پاکستان کے کسی بھی شہر میں اس سے بڑا اور کوئی نہیں۔ ان کا محل تو بڑا بن گیا مگر بات حیثیت کی ہے جو وہ لوگوں میں گنوا بیٹھے۔ہم نہیں جانتے کہ جمہوریت ہو یا فیڈریشن یہ اس ملک کا اٹوٹ انگ ہیں۔

یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ زرداری صاحب کے لیے عرض ہے کہ جب آمریتوں نے اس کو کمزور کیا تو کون سا آمر ہے جسے پاکستان کی تاریخ میں پھر عزت سے یاد کیا جاتا۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی جمہوریت کو بلاول ہاؤس جیسا محل بنانے کے لیے راستوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دے گا وہ بھی اسی آمر کی طرح ہے، اور اسے بھی پاکستان کی تاریخ میں کوئی عزت نہیں ملنے والی۔تاہم اب جب کہ فوج نے شفاف انداز اپنا کے آپریشن شروع کیا ہے اور انھیں اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی لالچ نہیں، اسی لیے فوج پاکستان کے عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنے میں کامیاب جا رہی ہے۔

ضرورت ہے 23 مارچ کو لوٹانے کے سات سال بعد ہم اس دن کو آخر لوٹ آئے ہیں۔ اس میں فوجی پریڈ کے علاوہ چاروں اکائیوں کی ترجمانی کرنے والے فلوٹ بھی تھے، اس لیے جتنا یہ ملک فیڈریشن بنتا جائے گا اتنا ہی یہ ملک اور سے اور پاکستان بنتا جائے گا۔ 23 مارچ 1940ء اور 11 اگست 1947ء کے بغیر 14 اگست 1947ء کوئی بھی معنی نہیں رکھتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔