ایک ہی زندگی

فرح ناز  ہفتہ 28 مارچ 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں وہ کم از کم خدا کے وجود سے انکاری نہیں ’’کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے‘‘ ہاں! زندگی دنیا پر ختم ہے یا اس کے بعد بھی کوئی زندگی ہے، اس پر ذرا الگ الگ نظریات ہیں، لیکن بحیثیت مسلمان ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ دنیا میں ہماری ایک ہی زندگی ہے اور مرنے کے بعد آخرت پر، دوزخ اور جنت پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں گو کہ کچھ جو زیادہ پڑھ گئے ہیں زیادہ سمجھ بُوجھ رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی کہیں کہیں کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ’’جی لو، زندگی ملے صرف ایک بار‘‘۔

تو جناب مل گئی زندگی ایک بار! مگر ایک فرد کو تو نہیں ملی جتنی زندگیاں ہیں، جتنے لوگ ہیں سب پر ہی زندگی کی خوشیاں، زندگی کی راحتیں، زندگی کے سکھ، تمام زندگی کی بنیادی ضرورتیں اور سانس لینے کا حق سب کے لیے یکساں، سب کے لیے برابر، تمام لوگوں کے لیے ایک جیسا! اور یہ صرف پڑھنے کی حد تک نہیں، سمجھنے کی حد تک بھی نہیں بلکہ دو قدم بڑھا کر اس کو سب کے لیے لاگو کرنے کی حد تک۔ 1947ء کے بعد آزاد ملک ہوا، غلامی ختم ہوئی، ہمارے آبا و اجداد بے تحاشا قربانیاں دے کر ہم سب کے لیے ایک آزاد ملک کا تحفہ دے کر بے حساب جدوجہد کے ساتھ اس دنیا فانی سے گزر گئے۔

مگر بدقسمتی دیکھیے ہماری کہ ہم آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی غلاموں سے زیادہ غلام ہو گئے۔ جاگیردارانہ فرسودہ نظام (آج تک موجود) قانون کی بالادستی (ہم نے بالکل نہیں مانی) تعلیم کا حصول اور پھیلاؤ (صرف باتوں کی حد تک ہزاروں گھوسٹ اسکولز موجود) صحت و صفائی (اللہ معاف کرے کہ آج کی تاریخوں میں بھی گندگی و غلاظت کا راج) آج تک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے، کام کی جگہوں پر، چاہے وہ خاتون تن تنہا اپنی اور بچوں کی ذمے داریاں اٹھا رہی ہو۔

تعلیم کے میدان میں پاکستان پوری دنیا میں Lowest ریٹ پر ہے۔ 40 فیصد سے زیادہ لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں (یا ان کو بھیجا نہیں جاتا یا ان کی تعلیم کو ضروری نہیں سمجھا جاتا) خاص طور پر گاؤں اور دیہاتوں میں یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تو رسم و رواج نے آج تک عورت کو جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 96 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہی ہے، کسی بھی فرقے سے تعلق ہو مگر تعلیم تو عورت اور مرد کے لیے برابر ہو، لڑکیوں کی تعلیم آج بھی Issue بنی ہوئی ہے، Co-Education کو شروع جماعتوں سے ہی ناپسندیدہ فعل تصور کیا جاتا ہے۔

کلاس 1 سے لڑکیوں اور لڑکوں کے الگ الگ اسکول ہونے لازمی ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں، دیہاتوں میں دور دور اسکول ہونا، چھوٹے بچوں سے مزدوری کروانا، اساتذہ کو ڈرانا دھمکانا، اور جاگیرداروں کا خوف کہ کہیں یہ پڑھ لکھ کر ان کے برابر نہ آ جائے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حصول کو مشکل سے مشکل بنا دینا۔

اس ایک ہی زندگی میں، کتنی مشکل اور تنگ کر دی جاتی ہے زندگی کہ بچوں کا بچپن اور ان کی جوانی، ان کا کردار، ان کی سوچ، ہر طرح سے غلام بنایا جاتا ہے، خاندانوں کو، گھرانوں کو مجبور کر دیا جاتا ہے، کبھی کسی فرقے کی آڑ لے کر، کبھی حکمرانوں کی نالائقی سمجھ کر۔ ذہانت سے بھرپور ذہنوں کو، کشادہ روشن چہروں کو ان کے بڑے ہی اتنا کمزور، اتنا خوفزدہ بنا دیتے ہیں کہ ان کی اپنی سوچ Yes Sir سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتی، زبردستی فرماں برداری کروا کر جتایا جاتا ہے کہ وہ بارعب بڑوں کا درجہ رکھتے ہیں، بچپن کی گم گشتہ ذہانتیں، کچھ بننے کا شوق دنیا کو جیتنے کی لگن گویا سب کچھ ایک خواب بن کر رہ جاتی ہیں۔

خوف اور کمزوری، کبھی کسی کو پنپنے نہیں دیتی اور یہی حربہ ہمارے ہاں کے انتہا پسند آزما رہے ہیں کہ ہماری موجودہ نسل کے دل و دماغ میں خوف بھر کر اندر تک سے ہمیں مارنا چاہتے ہیں۔ انتہا اور انتہاپسندی کو ہر سطح پر ناپسندیدہ قرار دیا جا رہا ہے، وہ پاکستان ہو یا دنیا کے اور بہت سے ممالک۔ انسانیت کو ہر دور میں بلند مقام حاصل رہا اور رہے گا، مگر ہم جائزہ لیں خاص طور پر ان تمام ادوار کا، ان تمام ارکان کا جو کسی نہ کسی دور میں کسی نہ کسی حیثیت میں پاکستان پر حکمرانی میں حصہ دار رہے یا حکمرانی کرتے رہے تو لگے گا کہ شاید چیخ چیخ کر دوسروں کو انتہا پسند کہنے والے خود بھی انتہاپسندی میں ملوث رہے۔

کرسی کا نشہ، کرسی کی لت ایسی پڑتی ہے کہ سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، وہ ڈکٹیٹر ہو یا ووٹ کی طاقت، سب نے آ کر کبھی بھی متوازن دور نہیں گزارا۔ جنرل ضیا کا دور بھی کچھ ایسا ہی دور ہے جس میں اسلام اور اسلامی قوانین کا ڈنکا ایسا پیٹا گیا کہ فنکاروں تک کو نہ بخشا گیا، خواتین آرٹسٹ اور نیوز کاسٹر کو سر پر دوپٹہ اوڑھے رکھنے کی ہدایت رہی، بھرپور اختلافات رہے، گھٹن زدہ طویل دور گزرا، سیاسی کارکنان نے اسلامی سزائیں کھائیں، کوڑوں کی سزاؤں کو بڑھایا گیا۔

ضیا الحق اگر طیارہ کے ایکسیڈنٹ میں وفات نہ پاتے تو پتہ نہیں اور کتنے سال تک وہ چھپی ہوئی انتہاپسندی جو طاقت کے بل بوتے پر ملتی ہے اور کیا کیا کچھ نہ کرواتی۔ نواز شریف اپنا تیسرا حکمرانی کا دور گزار رہے ہیں، مگر یہ تیسرا دور ان کو شاید ساری زندگی یاد رہے گا، ویسے تو دوسرا دور بھی ان کی زندگی کو یادگار بنانے کے لیے کافی ہے، مگر یہ دور پھر ایک دور کی یاد دلاتا ہے کہ 90-80ء میں جس طرح MQM کو سجایا گیا بالکل کچھ اسی طرح سے PTI کا دور بھی نظر آ رہا ہے۔

زبردستی لوگوں کے دل و دماغ پر بٹھایا جا رہا ہے، حالانکہ عمران خان میں لیڈر والی کوالٹی کا فقدان نظر آتا ہے مگر ہمارے پاس Option نہیں، لیکن چونکہ میڈیا بھی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے، صحافی، اینکرپرسن اسکرین پر نظر آ رہے ہیں ان کے ماضی، حال، مستقبل کے تجزیے لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں، اب شاید تاریک دور کی عمر لمبی نہیں ہو گی۔ سب سے پہلے تو ہمارے لیڈر اور تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو اپنے اندر سے انتہا پسندی ختم کرنی ہو گی تب ہی باہر کی انتہا پسندی کا مقابلہ ہو سکے گا۔

اس ایک ہی زندگی میں جس میں تمام مخلوق کے لیے اللہ عالی شان کی جانب سے موت برحق ہے اور سب کے سب کو خالی ہاتھ ہی اس تاریک قبر میں سونا ہے، ہمیں ہیرے جواہرات سے بھرے ہاتھ، ایک مٹھی، مٹی ڈال کر واپس اپنے آرام دہ گھروں کی طرف لوٹ جاتے ہیں، کچھ پھول کچھ اگربتیاں ہی قبر کی زینت بنتی ہیں، تمام موج مستی قصہ پارینہ ہو جائیں گے اور تمام تلخ حقیقتوں کے دروازے کھل جائیں گے مگر وقت گزر چکا ہو گا جانے کتنوں کا حق مارا، کتنوں کو قتل و غارت کیا، کتنے محل بنائے، کتنے دولت کے انبار جمع کیے۔

تمام دوست دشمن ہوتے یہاں تک کہ سگی اولاد بھی لالچ اور حرص میں مبتلا ہوتی کہ مکافات عمل تو شروع رہے گا قیامت تک، ہمارا کوئی بھی فلسفہ، کوئی بھی نظریہ معنی نہیں رکھتا اگر ہم اپنے پیدا کرنے والے کے نظریے اور فلسفے کو نہ سمجھیں، سب کے سب عوام کے دوست اور خیرخواہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بس نہیں چلتا کہ مٹھی بھر مرچیں عوام کی آنکھوں میں جھونک دیں۔

اگر یہ سب عوام کے دوست ہیں اور عوام کی بھلائی کرتے ہیں تو ان کے طرز زندگی میں اور عوام کے طرز زندگی میں اتنا فرق کیوں؟ یہ سب کے سب عام گلیوں کے گھروں سے محلوں میں کیسے پہنچ جاتے ہیں جب کہ عوام کے لیے ان کی عام گلیاں بھی گندگی کا ڈھیر بنتی جا رہی ہیں، یہ دوست اور ساتھی ہیں تو ایک جیسی سہولتوں کا فقدان کیوں؟ روٹی سے لے کر تعلیم تک فرق کیوں؟ زندگی تو سب کے لیے ایک بار ہی ہے پھر یہ روز روز عوام کو موت سے ہمکنار کیوں کرتے ہیں اور پھر خود تمام عالم کے لیے ’’مکافات عمل‘‘ کا نمونہ بن جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔