- پولر آئس کا پگھلاؤ زمین کی گردش، وقت کی رفتار سست کرنے کا باعث بن رہا ہے، تحقیق
- سندھ میں کتوں کے کاٹنے کی شکایت کیلئے ہیلپ لائن 1093 بحال
- کراچی: ڈکیتی کا جن قابو کرنے کیلیے پولیس کا ایکشن، دو ڈاکو ہلاک اور پانچ زخمی
- کرپٹو کے ارب پتی ‘پوسٹربوائے’ کو صارفین سے 8 ارب ڈالر ہتھیانے پر 25 سال قید
- گٹر میں گرنے والے بچے کی والدہ کا واٹر بورڈ پر 6 کروڑ ہرجانے کا دعویٰ
- کرپٹو کرنسی فراڈ اسکینڈل میں سام بینک مین فرائڈ کو 25 سال قید
- کراچی، تاجر کو قتل کر کے فرار ہونے والی بیوی آشنا سمیت گرفتار
- ججز کے خط کی انکوائری، وفاقی کابینہ کا اجلاس ہفتے کو طلب
- امریکا میں آہنی پل گرنے کا واقعہ، سمندر سے دو لاشیں نکال لی گئیں
- خواجہ سراؤں نے اوباش لڑکوں کے گروہ کے رکن کو پکڑ کر درگت بنادی، ویڈیو وائرل
- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، فل کورٹ اعلامیہ
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
سندھ کی جیلوں سے 12 سال قبل پے رول پر رہا 16 قیدی غائب
کراچی: سندھ کی مختلف جیلوں سے 12 برس قبل پے رول پر رہا کیے گئے 16 قیدی تاحال واپس نہیں آسکے، ملزمان قتل اوردیگر سنگین جرائم میں ملوث ہیں، کئی مرتبہ ناقابل ضمانت وارنٹ بھی جاری کیے گئے۔
جیل حکام نے محکمہ داخلہ کو مکتوب لکھے لیکن کوئی کارروائی نہ ہوسکی، ایک ملزم 18 برس قبل رہا ہوا تھا، تفصیلات کے مطابق سندھ کی مختلف جیلوں سے 12 برس قبل عارضی پے رول پر 16 قیدیوں کو رہا کیا گیا جوکہ تاحال جیلوں میں واپس ہی نہیں آسکے، ملزمان قتل، اقدام قتل، ناجائزاسلحہ، ہنگامہ آرائی اوردیگر جرائم میں ملوث ہیں، ایکسپریس کو حاصل دستاویزات کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے جیل حکام نے متعدد مرتبہ محکمہ داخلہ کو خطوط لکھے لیکن کوئی موثر کارروائی عمل میں نہیں آئی، 2011 میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا تھا،آخری مرتبہ 2012 میں مذکورہ 16 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے گئے لیکن اس کے بعد بھی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔
ملزمان میں سینٹرل جیل کراچی کے 8 ملزمان ہیں جنھیں اگست 2003 میں عارضی پے رول پر رہا کیا گیا، ملزمان میں آصف، فیصل ندیم، سجاد، اظہار احمد، محمد علی، ریاض عرف چاچا، عبدالسلام اور عبداللطیف شامل ہیں، ڈسٹرکٹ جیل ملیر کے 7 ملزمان ہیں جنھیں جنوری 2005 میں عارضی پے رول پر رہا کیا گیا، ملزمان میں محمد شہزاد، علی حسن، عبدالراشد، مسعود، محمد علی،محمد سلیم اور سلمان شامل ہیں جبکہ حیدرآباد جیل کا ایک قیدی انیس احمد بھی شامل ہے جسے 1997 میں رہا کیا گیا تھا، دستاویزات کے مطابق مذکورہ 16 ملزمان کے خلاف مختلف تھانوں میں 28 مقدمات درج ہیں،پولیس ملزمان کو آج تک پکڑنے میں ناکام ہے ۔
عارضی پے رول24 سے 48 گھنٹے کا ہوتا ہے لیکن16 غائب ملزمان کو90 روز کا عارضی پے رول دیاگیا، قانون کے مطابق کسی بھی قیدی کے بھائی بہن یا ایسا شخص جس سے اس کا خونی رشتہ ہواس کی شادی یا اس کے انتقال پر24 سے 48 گھنٹے کے عارضی پے رول پررہا کیا جاتا ہے،ایک پے رول 90 روز کا ہوتا ہے، اب تک واپس نہ آنے والے مذکورہ 16 ملزمان کو90 روزکا پے رول دیا گیا تھا، پے رول کے لیے شخصی ضمانت یا50 ہزارروپے مالیت کی ضمانت لی جاتی ہے جس کے لیے بانڈ جمع کرائے جاتے ہیں، رہائی سے قبل جیل حکام متعلقہ پولیس ہیڈ کوارٹرز، متعلقہ ایس پی، جہاں ملزم کی رہائش ہو اس تھانے میں اور اس کے علاوہ جہاں ملزم نے جرم کی وارات کی ہو، ان تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو بھی مطلع کرتے ہیں، رہائی کے وقت ملزم کو ایس پی سطح کے افسر کے حوالے کیا جاتا ہے، مذکورہ مدت کے دوران اگرملزم واپس نہیں آئے توجیل حکام مکتوب لکھ کر یاد دہانی کراتے ہیں ۔
کراچی اور حیدرآباد میں سال 2003 سے 2012 تک 70 ملزمان کو پے رول پر رہا کیا گیا، روزنامہ ایکسپریس کو حاصل دستاویزات کے مطابق کراچی سینٹرل جیل سے سال 2003 کے دوران 50 ملزمان کوعارضی پے رول پر رہاکیاگیا، ان میں سے کئی ملزمان واپس آگئے اورسزائیں پوری کرکے رہا کردیے گئے، ڈسٹرکٹ جیل ملیر سے سال 2005 کے دوران 12 ملزمان کو پے رول دیا گیا، حیدرآباد کی سینٹرل جیل سے سال 1997 کے دوران 6 ملزمان جبکہ سال 2005 اور سال 2012 کے دوران ایک ایک ملزم کو پے رول پر چھوڑا گیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔