ورلڈ کپ کا فیصلہ کن معرکہ؛ کیویز اولین ٹائٹل پر قبضہ جمانے کیلئے بے تاب

عباس رضا  اتوار 29 مارچ 2015
گلین میکسیویل کی طرف سے چوکوں چھکوں کی برسات روک روکنا بھی مہمان ٹیم کے لیے چیلنج ہوگا. فوٹو: فائل

گلین میکسیویل کی طرف سے چوکوں چھکوں کی برسات روک روکنا بھی مہمان ٹیم کے لیے چیلنج ہوگا. فوٹو: فائل

ورلڈکپ ہر 4سال بعد کرکٹرز کی مہارت اور اعصاب کا امتحان لیتا ہے۔

کنڈیشنز کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے بھی تجربے اور ٹھوس پلاننگ کی ضرورت پڑتی ہے،اہم مواقع پر درست فیصلے ہی فتح کی راہ ہموار کرتے ہیں، اس بار میگا ایونٹ کی میزبانی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو ملنے کی وجہ سے توقع کی جارہی تھی کہ تیز اور بائونسی وکٹوں پر زیادہ تر میچ لو سکورننگ ہونگے، تاہم کہانی ذرا مختلف ہی نظر آئی۔

گزشتہ تمام ورلڈکپ مقابلوں میں صرف ایک بار ہی کوئی ٹیم 400کا ہندسہ پار کرپائی تھی لیکن اس بار 3بار مختلف ٹیموں نے یہ سنگ میل عبورکیا،دوسری جانب 14ٹیموں کو مقابلوں کا حصہ بنائے جانے کے باوجود چھوٹی ٹیمیں اکا دکا میچز میں اچھی کارکردگی کے باوجود اگلے مرحلے میں رسائی پانے میں ناکام رہیں۔

گروپ سٹیج کے مرحلے کے دوران چند غیرمتوقع موڑ نظر آئے،گروپ بی میں آئرلینڈ نے ویسٹ انڈیز کو اپ سیٹ کرتے ہوئے 304 رنز کا ہدف 6وکٹ پر حاصل کرلیا، پاکستان نے جنوبی افریقہ کو 29رنز سے زیر کرکے کوارٹر فائنل کے لیے راہ ہموار کی،گروپ اے میں بنگلہ دیش نے انگلینڈ کو 15رنز سے مات دے کر گھر واپسی پر مجبور کردیا،دیگر نتائج توقعات کے مطابق ہی تھے۔

کوارٹر فائنل میں پروٹیز نے سری لنکا کو باآسانی ہراکر یہ امید جگائی کہ اس بار ٹیم شاید ’’چوکرز‘‘ کا لیبل اتارنے میں کامیاب ہوجائے، پیش قدمی جاری رکھنے کے لیے ان کو کیوی دیوار گرانا تھی جنہوں نے جارحانہ انداز میں کرکٹ کھیلتے ہوئے کسی کو خاطر میں لائے بغیر ہر مقابل ٹیم کو لاجواب کیا، ابتدا میں نیوزی لینڈ کو ٹاپ آرڈر کی فارم سے پریشانی تھی مگر مارٹن گپٹل نے ویسٹ انڈیز کیخلاف 237 رنز جڑ کر ان شبہات کو بھی دور کردیا۔

سیمی فائنل میں ایک بار پھر تقدیر جنوبی افریقہ سے روٹھی رہی، بارش کے باوجود ایک اچھا مجموعہ تشکیل دینے میں کامیابی بھی فتح کی ضمانت نہ بن سکی،ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے میزبان کپتان برینڈن میک کولم نے روایتی انداز میں ابتدا میں کاری ضرب لگادی، اعصاب شکن مرحلے میں جنوبی افریقہ میں ہی پیدا ہونے والے گرانٹ ایلوئیٹ نے آخری اوور کی پانچویں گیند پر چھکا جڑ کر اپنے آبائی وطن کے عوام کو صدماتی کیفیت سے دوچار کیا، حیرت کی بات یہ کہ پروٹیز قبل ازیں نیوزی لینڈ کو اسی کی سرزمین پر آخری 5 میچز میں شکست دے چکے تھے، تاہم فیصلہ کن لمحات میں ہاتھ پائوں پھول گئے،بولرز کی لائن لینتھ بگڑی تو دوسری جانب فیلڈرز نے بھی رن آئوٹ اور کیچ کے مواقع گنواکر میزبان ٹیم کاکام آسان کیا۔

دوسرے سیمی فائنل میں جگہ بنانے والا دفاعی چیمپئن بھارت بھی نیوزی کی طرح گروپ بی کے تمام 6میچز میں کامیاب رہا، سر فہرست ہونے کی وجہ سے اس کو بنگلہ دیش جیسا آسان شکار کرکے پیش قدمی جاری رکھنے کا موقع ملا، دوسری جانب آسٹریلیا کی ٹیم کیویز کے ہاتھوں شکست اور بنگال ٹائیگرز سے میچ بارش کی نذر ہونے کی وجہ سے پوائنٹ گنوانے کے بعد کوارٹرفائنل میں پاکستان کے چیلنج کا سامنا کرکے آگے بڑھی تھی۔

گرین شرٹس سے میچ کے درمیانی اوورز میں وہاب ریاض کی تباہ کن بولنگ کے سامنے کینگرو بیٹنگ لائن لڑکھڑاتی دکھائی دے رہی تھی لیکن فیلڈرز نے میزبان ٹیم کو میچ میں واپسی کا موقع فراہم کردیا، فائنل تک رسائی کی جنگ میں بلو شرٹس کا رنگ پھیکا رہا، بھارتی بولرز آسٹریلیا کے گولڈن بوائے سٹیون سمتھ اور ایرون فنچ کے بعد آخری اوور میں مچل جونسن کے عتاب سے نہ بچ پائے، ہدف کے تعاقب میں بیٹنگ لائن کسی بھی موقع پر کینگروز کے لیے چیلنج بنتی نظر نہیں آئی جس کے بعد بھارت سمیت دنیا بھر کے مبصرین یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ بجا طور پر ایونٹ کی 2 بہترین ٹیمیں ہی ٹائٹل کے لیے فیصلہ کن جنگ لڑیں گی۔

ماضی کے ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو اب تک کھیلے گئے 10 ورلڈ کپ میں آسٹریلیا 6 بار فائنل تک رسائی حاصل کر چکا جس میں سے 4مرتبہ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، دوسری جانب نیوزی لینڈ نے ساتواں سیمی فائنل کھیل کر پہلی بار ٹائٹل کی جانب پیش قدمی جاری رکھی ہے۔گروپ میچ میں بھی دونوں فائنلسٹ ٹیموں کا ٹاکرا ہو چکا ہے۔

جس میں نیوزی لینڈ نے آسٹریلیا کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد صرف ایک وکٹ سے شکست دیدی تھی، ٹرینٹ بولٹ کی تباہ کن بولنگ کی وجہ سے کینگروز صرف 151رنز پر ڈھیر ہوگئے تھے، جواب میں کیویز کو بھی سخت چینلج کا سامنا کرنا پڑا،مچل سٹارک نے بیٹنگ کے بخیئے ادھیڑتے ہوئے 6 شکار کئے، کین ولیمسن ثابت قدمی کا مظاہرہ نہ کرتے تو مہمان ٹیم سرخرو ہوجاتی، اس فتح کی بنا پر کیویز کو تھوڑی نفسیاتی برتری حاصل ہے لیکن فائنل میں صورتحال قطعی مختلف ہوگی، کیویز کو اپنی تاریخ میں پہلی بار ٹائٹل کے لیے جنگ حریف کے گھر میں جاکر لڑنا ہے۔

کنڈیشنز بھی کینگروز کے لیے زیادہ موزوں ہیں، دونوں ٹیموں کے پاس میچز ونر بولر اور بیٹسمین موجود ہیں،تاہم کیوی بیٹنگ کی اب تک کی دھواں دھار کارکردگی اپنے میدانوں پر تھی،ان کا سخت ترین میچ آکلینڈ میں آسٹریلیا کیساتھ تھا، نیوزی لینڈ کی چھوٹی گرائونڈز کے برعکس اس بار سب سے طویل بائونڈریز والے میلبورن کے میدان پر رنز بنانے بھی ہیں اور روکنے بھی، کیویز کو اس وینیو پر کھیلنے کا زیادہ تجربہ بھی نہیں، انہوں نے 2009کے بعد یہاں کسی مقابلے میں حصہ نہیں لیا،ہوم گرائونڈز پر برینڈن میک کولم ابتدائی اوورز میں ہی حریفوں کے حوصلے پست کرتے رہے ہیں۔

اس بار نہ تو بولرز اتنے کمزور ہیں اور نہ ہی بائونڈری اتنی نزدیک کہ پوری طرح بیٹ پر نہ آنے والی گیندبھی فیلڈرز کی پہنچ سے دور ہوجائے، جارحیت کو بریک لگانے کے لیے کینگروز کی پلاننگ بھی جاری ہے، اس طرح کے میدان پر رنز چرانے میں مہارت رکھنے والے سٹیون سمتھ بھی زندگی کی بہترین فارم میں ہیں، کیویز کے پاس اسی کلاس کے بیٹسمین کین ولیمسن ہیں۔

گلین میکسیویل کی طرف سے چوکوں چھکوں کی برسات روک روکنا بھی مہمان ٹیم کے لیے چیلنج ہوگا، ٹرینٹ بولٹ اور مچل سٹارک سمیت دونوں جانب کے پیسرز کی لڑائی میں ڈینیئل ویٹوری کا تجربہ کیویز کے لیے ٹرمپ کارڈ ثابت ہوسکتا ہے، نیوزی لینڈ کی ٹیم پہلی بار فائنل کھیلنے اور گھر سے باہر میلبورن کی کنڈیشنز کا دبائو برداشت کرگئی تب ہی چیمپئن بن سکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔