ون ڈے ٹیم کی کمان ’’نئے مصباح‘‘ کے سپرد کرنے کا پلان

سلیم خالق  اتوار 29 مارچ 2015
پلیئرز ہی نہیں مینجمنٹ بھی ذمہ دار، کوچز کو بلا کر وضاحت طلب کی جائے۔  فوٹو : فائل

پلیئرز ہی نہیں مینجمنٹ بھی ذمہ دار، کوچز کو بلا کر وضاحت طلب کی جائے۔ فوٹو : فائل

پاکستان کرکٹ کی یہ خرابی ہے کہ یہاں سینئرز جونیئر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، انھیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ آگے نکل کر ان کی جگہ نہ سنبھال لے، زیادہ دور نہیں جاتے انضمام الحق کی مثال سامنے ہے جب تک وہ کپتان رہے کتنے نئے بیٹسمین سامنے آئے؟مصباح الحق کو بھی تاخیر سے موقع ملا، پھر انھوں نے دیگر نوجوانوں کے ساتھ ایسا کیا، یہ سلسلہ شاید ہمیشہ ہی چلتا رہے مگر اس کا نقصان قومی کرکٹ کو ہوتا ہے۔

سینئر کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے پاس ان کی جگہ سنبھالنے والا کوئی کھلاڑی نہیں ہوتا، اب جیسے مصباح ون ڈے سے ریٹائر ہوئے تو پاکستان کے پاس کوئی متبادل کپتان تک موجود نہیں ہے، ٹیم سے باہرکھلاڑیوں میں سے شاید کسی کو ذمہ داری سونپنا پڑے،اس کی ذمہ داری بورڈ حکام پر بھی عائد ہوتی ہے، سب بخوبی جانتے تھے کہ مصباح ورلڈکپ تک عمر کی 40 بہاریں دیکھ چکے ہوں گے،اس کے باوجود کسی نوجوان کو گروم نہ کیا گیا۔

شاہدآفریدی کے بارے میں بھی علم تھا کہ میگا ایونٹ کے بعد وہ بھی ون ڈے چھوڑ دیں گے، اس لیے کوئی پلان بی بنانا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہوا، ورلڈکپ سے قبل میں نے چیئرمین بورڈ شہریار خان سے پوچھا کہ کیا وہ کسی نائب کپتان کا تقرر کریں گے؟ تو انھوں نے یہی جواب دیا کہ وہ اس کے حق میں نہیں ہیں، شاید انھیں لگتا ہو کہ اس سے ٹیم میں سیاست بڑھ جائے گی،مگر ایسے فیصلوں کا نقصان یہ ہواکہ اب وہ25لوگوں سے مشورہ کر چکے تاہم تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔

ویسے سیاستدان بدنام ہیں کہ اپنے رشتہ داروں کو نوازتے ہیں مگر کرکٹرز بھی پیچھے نہیں ہیں، یہاں دوستیاں نبھائی جاتی ہیں، مصباح اپنے قریبی دوست حفیظ کو ساتھ لے کر چلے، ٹی ٹوئنٹی میں کپتانی تک دلا دی مگر وہ اس حیثیت سے ناکام ثابت ہوئے اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد عہدہ چھوڑنا پڑا،اسی دوران مصباح نے سمجھ لیا کہ کسی دوسرے ہم خیال کرکٹر کو بھی پروموٹ کرنا ہوگا تو وہ اظہر علی کو ساتھ لے کر چلنے لگے۔

مگر یہاں بھی معاملہ الٹ ہو گیا درمیان میں کچھ عرصے نوجوان بیٹسمین آئوٹ آف فارم ہوئے تو نائب کپتانی کی بات نہ چلائی جا سکی، اب ورلڈ کپ سے قبل ہی مصباح کو اندازہ تھا کہ ٹیم کا کیا حشر ہونے والا ہے، وہ اپنا اثرورسوخ بھی برقرار رکھنا چاہتے تھے، اس لیے آسٹریلیا میں ہی کوچ وقار یونس سے ڈیل ہو گئی کہ وہ ان کے معاملات میں دخل نہیں دیں گے لیکن میگا ایونٹ کے بعد اظہر علی کو بطور کپتان سپورٹ کیا جائے گا، یوں اب اس بات کا امکان انتہائی روشن ہے کہ وہ ون ڈے ٹیم کی بھی قیادت سنبھال لیں، یوں ایک مصباح جائے گا تو اسی انداز سے کھیلنے والے ٹیم کو دوسرا’’مصباح‘‘مل جائے گا۔

یہاں سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اگر اظہر علی اتنے ہی باصلاحیت بیٹسمین ہیں تو انھیں ورلڈکپ میں کیوں نہیں لے جایا گیا؟ یا اگر ان کا انداز ون ڈے سے مطابقت نہیں رکھتا تو کپتان کیوں بنایا جا رہا ہے؟ وہ 30سال کے ہو چکے اور5سالہ انٹرنیشنل کیریئر میں 14 ون ڈے ہی کھیل سکے ہیں، ایسے کھلاڑی کو قیادت سونپنے کا فیصلہ کسی طور درست نہ ہو گا۔

مصباح اور وقار یونس ٹیم کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے ہیں،دراصل کوچ کو بھی یس مین چاہیے،ماضی میں شاہدآفریدی سے ان کے اختلافات ہو چکے تھے، مصباح تو ویسے ہی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے مشہور ہیں اس لیے ان سے خوب نبھی، پہلے احمد شہزاد کا نام قیادت کے لیے سامنے آیا تھا مگر پھر ان کیخلاف باقاعدہ مہم چلا کر ولن کے طور پر پیش کیا گیا۔

یوں اب دور دور تک اوپنر کا کپتانی کے لیے کوئی ذکر بھی نہیں کرتا، فواد عالم اچھا انتخاب ثابت ہو سکتے ہیں مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اور سرفراز احمد کوچ کی نظروں میں کبھی نہ جمے لہٰذا انھیں کیسے عہدہ سونپا جائے گا؟30سالہ وہاب ریاض کا2008میں انٹرنیشنل ڈیبیو ہوا، اب تک انھوں نے 8 ٹیسٹ،54 ون ڈے اور7ٹی ٹوئنٹی ہی کھیلے ہیں، حالیہ ورلڈکپ سے قبل 2011کے میگا ایونٹ میں ان کی بھارت کے خلاف5 وکٹ کی کارکردگی قابل ذکر تھی۔

اب 4 سال بعد دوبارہ آسٹریلیا کے خلاف عمدہ بولنگ کی تو انھیںکپتان بنانے کی باتیں شروع ہو گئیں، یقیناً وہاب نے کرکٹ تاریخ کا ایک یادگار اسپیل کیا مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی بولنگ ہمیشہ نہیں ہوتی، شاہد آفریدی نے کیریئر کے دوسرے میچ میں تیز ترین سنچری بنائی اس کے بعد 19سال تک وہ کارنامہ نہ دہرا سکے، کرکٹ میں ایسا ہی ہوتا ہے، وہاب اچھے بولر ہیں اور امید ہے کہ آئندہ میچز میں بھی بہترین کارکردگی دکھائیں گے مگر وابستہ توقعات کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچانا ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی، کپتان کے لیے تعلیم یافتہ اور باصلاحیت صہیب مقصود اچھا انتخاب ثابت ہو سکتے ہیں۔

ٹیم کی نیوزی لینڈ روانگی تک وہی قیادت کے لیے فیورٹ تھے مگر بدقسمتی سے اچھا پرفارم نہ کر سکے تو وقار اور مصباح کو اظہر کے لیے مہم آگے بڑھانے کا موقع مل گیا۔ اس معاملے میں چیئرمین بورڈ کو جلد کوئی اعلان کرنا چاہیے کیونکہ اب آدھی ٹیم قیادت کے خواب دیکھ رہی ہے، جسے عہدہ نہ ملا وہ دوسرے کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے، اسی کے ساتھ نائب کپتان کا تقرر بھی کرنا چاہیے تاکہ ضرورت پڑنے پر آپ کے پاس آپشن موجود ہو۔

قومی ٹیم کے کوچ وقار یونس کا بیان یقینا آپ کی نظروں سے گزرا ہو گا جس میں انھوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ملک میں انٹرنیشنل مقابلوںکی واپسی نہ ہوئی تو کرکٹ کی موت واقع ہو جائے گی، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ایک طرف ملکی کرکٹ کے لیے اتنی تشویش ظاہر کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ورلڈکپ کے بعد پاکستان واپس آنا بھی مناسب نہ سمجھا، روانگی کے وقت بھی وہ ساتھ نہیں گئے بلکہ پہلے ہی آسٹریلیا اہل خانہ کے پاس پہنچ گئے تھے، یہ بات تو سب کو پتا ہو گی کہ گذشتہ کئی برسوں سے وقار یونس سڈنی میں مقیم اور اب آسٹریلوی شہری ہیں۔

پی سی بی انھیں دیگر مراعات کے ساتھ 14لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ ادا کرتا ہے،وہ بالکل ایسا کردار ادا کر رہے ہیں کہ کوئی مریض مر رہا ہو مگر اس کا ڈاکٹر علاج کرنے کے بجائے کہیں اور چلا جائے، انھیں چاہیے تھا کہ سب کے ساتھ واپس آتے اور بورڈ کو بہتری کے لیے تجاویز دیتے مگر اس سے گریز کیا۔

بس چیئرمین کو ایک ای میل ارسال کر دی جس میں اظہر علی کو کپتان بنانے کے ساتھ احمد شہزاد اور عمر اکمل کو باہر کرنے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں، حیران کن طور پر یہ ای میل آتے ہی ایک نجی نیوز چینل کو بھی مل گئی، بورڈ اب تک ’’گھر کے بھیدی‘‘ کا کچھ نہیں بگاڑ سکا، اس کی جب مرضی کوئی بھی خبر لیک کر دیتا ہے جس سے چیئرمین مشکل میں پڑ جاتے ہیں، یہ رپورٹ شہریار خان نے 2 افراد کو ای میل کی۔

ان میں سے ایک صاحب کا میڈیا سے کوئی رابطہ نہیں، وہ لوپروفائل میں رہ کر اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، ہاں دوسری شخصیت ضرور ایسا کر سکتی ہے ان کا نام لکھا تو وہ پہلے ہی میری بعض تحریروں کی وجہ سے سخت ناراض ہیں اب مزید آگ بگولہ ہو جائیں گے، ویسے ایسا ہونا نہیں چاہیے، دوسروں کی ٹانگیں کھینچنا بالکل درست عمل نہیں ہوتا۔

بورڈ کو اب نئی سلیکشن کمیٹی بھی تشکیل دینی ہے، اس کے لیے ہر روز نئے نئے نام سامنے آرہے ہیں،دیکھتے ہیں کسی ذمہ داری سونپی جائے گی، ویسے یہ فیصلہ خاصے سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا، بورڈ کو کسی ایسے سابق کرکٹر کو چیف سلیکٹر بنانا چاہیے جو موجودہ ٹیلنٹ سے واقف ہو تاکہ باصلاحیت پلیئرز کو ان کا حق مل سکے، اگر سفارش پر سلیکشن کمیٹی کا تقرر ہوا تو وہ بھی سفارشی کرکٹرز کو ہی موقع دے گی۔

ورلڈکپ آج ختم ہو جائے گا، ہم کھلاڑیوں پر تو تنقید کر رہے ہیں مگر کوچز کو چھوڑ دیا، یہ بھی تو پوچھنا چاہیے کہ وقار یونس نے کیا کارنامے انجام دیے، بطور کرکٹر ورلڈکپ میں وہ پہلے ہی ناکام تھے، کوچ کی حیثیت سے بھی کچھ نہ کر سکے،ان کے حالیہ دور میں پاکستان کوئی ون ڈے سیریز نہیں جیت سکا یہ بورڈ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

وہ ذاتی پسند نا پسند کے چکر میں پڑے رہے جس کی وجہ سے گرین شرٹس میگا ایونٹ کے ابتدائی میچز ہار گئے، اگر وقار یونس ذاتی انا کو پس پشت رکھ کر سرفراز احمد کو نظر انداز نہ کرتے تو شاید پاکستان کو کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا جیسے مضبوط حریف سے مقابلہ نہ کرنا پڑتا،بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کے آنے سے کیا بہتری آئی یہ بھی سب کے سامنے ہے جبکہ فیلڈنگ کوچ گرانٹ لیوڈن کی تو کوئی بات ہی نہیں سنتا، ایونٹ میں ٹیم نے اتنے زیادہ کیچز ڈراپ کیے۔

اس سے ان کی ’’افادیت‘‘ واضح ہو جاتی ہے، اسپن بولنگ کوچ مشتاق احمد کے آنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا، اس سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ان سب پر35،40لاکھ روپے ماہانہ صرف کرنے کا کیا فائدہ ہو رہا ہے، کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ اگر اتنی رقم خرچ کرنی ہے تو ایسے کوچز کو آگے لایا جائے تو ٹیم کے لیے کچھ کر سکیں۔

ابھی تو اشتہار دے کر قوم کو بے وقوف ہی بنایا جاتا ہے، وقار یونس کو کوچ بنانے کا فیصلہ پہلے ہی ہو گیا تھا مگر دکھاوے کے لیے اشتہار جاری کیا گیا، بیچارے کئی کوچز نے درخواست بھی دی مگر ہوا وہی جو پہلے ہی میڈیا میں آ چکا تھا، ایسی باتیں پی سی بی کو بدنامی کے سوا کچھ نہیں دیتیں،حکام کو اس حوالے سے ضرور سوچنا ہوگا، جب تک میرٹ کو ترجیح نہیں دیں گے بہتری کیسے آئی گی، کوچز کے ہاتھ میں پاکستانی کرکٹ کا مستقبل ہوتا ہے، ان کا انتخاب احتیاط سے کرنا چاہیے۔

پی سی بی کے میڈیا سمیت دیگر شعبوں میں بھی بہتری کی ضرورت ہے، ورلڈکپ میں آغا اکبر ٹیم کے ساتھ گئے مگر وہاں صحافی ان کے انداز سے خوش نہ تھے، اسی لیے کئی ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے، ٹیم کی اندرونی باتیں میڈیا کو لیک ہوئیں جبکہ تنازعات کی بھرمار ہوئی جس سے بورڈ کو جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انھیں بھیجنے کا فیصلہ درست نہ تھا،آئندہ ایسے بڑے ایونٹ میں کسی ماہر شخصیت کو ہی بھیجنا چاہیے، جو نہ صرف پاکستانی میڈیا کو معاملات سے آگاہ رکھے بلکہ پلیئرز کے انٹرویوز وغیرہ بھی کرا سکے۔

موجودہ ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی تندہی سے فرائض انجام دے رہے ہیں مگر بورڈ کی بعض اعلیٰ شخصیات انھیں کھل کر کام نہیں کرنے دے رہیں اور آغا اکبر کو پروموٹ کر رہی ہیں۔ میڈیا مینجمنٹ میں پی سی بی کو آئی سی سی سے سبق سیکھنا چاہیے،اس کے سربراہ بھی ایک پاکستانی سمیع الحسن برنی ہی ہیں، آغا اکبر50پاکستانی صحافیوں سے اچھے روابط نہیں رکھ پاتے مگر سمیع نے بھارت سمیت دنیا بھر کے میڈیا کو اچھے اخلاق کی وجہ سے گرویدہ بنایا ہوا ہے۔

اس ورلڈکپ میں کونسل نے میڈیا کے معاملے میں ایک انقلاب برپا کیا جو دیگر کھیلوں کے لیے بھی ایک مثال ہے، شریک ٹیموں کی ایک، ایک تفصیل، تصاویر، پریس کانفرنس کی آڈیو ویڈیوز، پلیئرز کے انٹرویوز، ریکارڈز سب کچھ میڈیا کو دستیاب تھا، کاش پی سی بی کو بھی کوئی سمیع الحسن برنی مل جائے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کا اگلا امتحان دورئہ بنگلہ دیش ہے، اس کے لیے نوجوان کھلاڑیوں کو منتخب کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، یہ درست اقدام ہوگا مگر ساتھ سینئرز کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

متوازن ٹیم ہی کامیابی کی ضمانت ہو گی، ورلڈکپ میں بہتر کارکردگی کے بعد بنگال ٹائیگرز کا اعتماد آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، ایسے میں انھیں آسان لینا سنگین غلطی ثابت ہو سکتی ہے، ورلڈکپ کوارٹر فائنل میں شکست کا غم تو قوم نے برداشت کر لیا مگر بنگلہ دیش سے ہار شاید کسی کو بھی ہضم نہ ہو سکے۔ n

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔