کرکٹ کی تاریخ رقم کرنے والی ایشیائی ٹیمیں آج محض تماشائی ہوں گی

آصف ریاض  اتوار 29 مارچ 2015
کرکٹ ہی وہ واحد کھیل ہے جس کو یہاں کے لوگ اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتے ہیں۔  فوٹو: اے ایف پی

کرکٹ ہی وہ واحد کھیل ہے جس کو یہاں کے لوگ اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

جنوبی ایشیا کی پہچان کرکٹ کو کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا، معاشی اور معاشرتی مسائل میں گھرے ہوئے اس خطے میں لوگوں کی کرکٹ سے جذباتی وابستگی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ہاکی کے کھیل میں پاکستان اور بھارت کا طوطی بولتاتھا لیکن وہ قصہ پارینہ ہو گیا، سکواش پر پاکستان کا سحر ایسا طاری تھا کہ کئی سال تک دنیا بھر کے کھلاڑی فائنل کھیلنے کو ترستے ہی رہے، فٹبال میں خطے کے ممالک کی کارکردگی واجبی سی ہے۔ شاید ہمارا نمبر دنیا کے سب سے زیادہ کھیلے جانے والے کھیل میںآخرپر ہی آتا ہے ۔

کرکٹ ہی وہ واحد کھیل ہے جس کو یہاں کے لوگ اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتے ہیں، اپنی ٹیم کی فتح کے ساتھ یہاں کے لوگوں کے چہرے مسرت سے چمک اٹھتے ہیں۔ ٹیم ہار جائے تو کھلاڑیوں کا زیر عتاب آنا بھی فطری عمل ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ شرفاء کے کھیل میں جس خطے نے سب سے زیادہ ترقی کی ہے وہ جنوبی ایشیا ہے تو کوئی بھی اس بات کو ٹھکرا نہیں سکے گا، اس کی مثال یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں شامل ممالک کی تعداد 8 ہے اور تقریباً تمام ہی کرکٹ کھیلتے ہیں، مالدیپ اور بھوٹان میں معیار نسبتاً کم ہے مگر وہاں پر بھی نوجوان تیزی سے اس جانب راغب ہورہے ہیں، نیپال کی ٹیم تو تیزی کے ساتھ اوپر آرہی ہے اس نے کئی بار ایشیا کپ میں شرکت کی ہے۔

پاکستان، بھارت اور سری لنکا کا ذکر تو ہمیشہ ہی صف اول کی ٹیموں میں ہوتا ہے لیکن اس بار عالمی کپ میں خطے کی پانچ ٹیموں نے شرکت کرتے ہوئے ریکارڈ قائم کیا۔ دفاعی چیمپئن بھارتی سائیڈ سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف ناکام رہی۔

پاکستان ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کا سفر کوارٹر فائنل میں ختم ہوا، کرکٹ کی تاریخ میں یہ بھی پہلا موقع تھا کہ جنوبی ایشیا کی 4 ٹیمیں ناک آئوٹ مرحلے میں پہنچیں، بنگلہ دیش نے رواں ایونٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی بار کوارٹر فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ افغانستان ہی وہ واحد سائیڈ تھی جو ابتدائی رائونڈ سے باہر ہو گئی لیکن اس نے ہم پلہ ایسوسی ایٹس ٹیموں کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔

دوسری طرف کرکٹ کی تاریخ بھی جنوبی ایشیا کے مایہ ناز کھلاڑیوں کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتی۔ 99ء کے ورلڈ کپ فاتح ٹیم کے کپتان عمران خان کے بعد جاوید میانداد کو کون بھول سکتا ہے۔ پھر ایک دور آیا کہ پاکستانی بولنگ اٹیک نے دنیا پر ہیبت طاری کیے رکھی، ٹو ڈبلیوز وسیم اکرم اور وقار یونس کے کارناموں ایک ایک طویل فہرست ہے۔

 

اس ملک نے دنیا کا سب سے تیزترین بولر شعیب اختر پیدا کیا۔ بھارتی سٹار بیٹسمین سچن ٹنڈولکر تو خود ایک تاریخ ہیں، اس عظیم کھلاڑی نے ٹیسٹ ، ون ڈے میں100 سے زائد سنچریاں اور سب سے زیادہ رنز بنائے۔ موجودہ دور میں ہر فارمیٹ میں بلو شرٹس کو نمبر ون ٹیم بنانے والے مہندرا سنگھ دھونی بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ سری لنکا کے پاس جادو گر سپنر مرلی دھرن اور حال ہی میں کرکٹ سے ریٹائرڈ ہونے والے کمارا سنگا کارا جیسے سٹارز موجود رہے۔

دوسری طرف ان ملکوں کی کارکردگی جاننے کے لیے ماضی کے اوراق کھنگالے جائیں تو معلوم ہوگا کہ کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں پاکستان، بھارت اور سری لنکا کی تاریخ سنہری کارناموں سے بھری پڑی ہے، بھارت دو بار عالمی چیمپئن رہ چکا، پاکستان اور سری لنکا نے ایک ایک مرتبہ ورلڈکپ کا تاج اپنے سر پر سجایا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سرزمین پر جاری کرکٹ ورلڈکپ سمیت اب تک 11 بار میگا ایونٹ کا انعقاد ہوچکا ہے۔

7 بار جنوبی ایشیائی ٹیموں نے فائنل تک رسائی حاصل کی۔ پہلی بار بھارت 1983ء میں ویسٹ انڈیز کو فیصلہ کن معرکہ میں شکست دے کر چیمپئن بنا۔1992ء کا ورلڈکپ پاکستانیوں کو کبھی نہیں بھول سکے گا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والے اس ایونٹ میں گرین شرٹس نے عمران خان کی قیادت میں قوم کو عالمی چیمپئن بن کر بڑا تحفہ دیا تھا۔1996ء میں ارجنا رانا ٹنگا کی سری لنکن ٹیم نے لاہور میں آسٹریلیا کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔

1999ء میں آسٹریلیا نے پاکستانی ٹیم کو پچھاڑ کر پھر چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، 2003ء اور 2007میں کینگروز نے بالترتیب بھارت اور سری لنکا کو زیر کرکے ٹائٹلز کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ 2011 ء کے فائنل میں دونوں ایشیائی ٹیموں کا ٹکرائو ہوا، جس میں بھارت نے سری لنکا کو مات دی تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ میگا ایونٹ کے 11 ویں ایڈیشن کے آج میلبورن میں کھیلے جانے والے فائنل میں 28 برس بعد کوئی بھی جنوبی ایشیائی ٹیم شامل نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔