بائیں بازو کی مختصر تاریخ

ظہیر اختر بیدری  پير 30 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

جب بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھی جائے گی اس کا پیش لفظ ’’بائیں بازو کی خدمات اور قربانیاں‘‘ ہو گا۔ قیام پاکستان کے بعد جب پاکستان کے قیام کے مقصد پر ابہام پیدا ہوا اور مختلف الفکر فریقین قیام پاکستان کی مختلف تاویلیں پیش کرنے لگے اور اپنے اپنے موقف کو جائز ثابت کرنے کے لیے جناح صاحب کی مختلف تقریروں کے حوالے دینے لگے تو اس انتشار میں بائیں بازو کی طاقتوں نے لفظی بحثوں میں وقت ضایع کرنے کے بجائے اپنے سیاسی ویژن سے عوام کی نظریاتی رہنمائی شروع کی۔ چونکہ بائیں بازو کا سیاسی ویژن پاکستان کے حکمران طبقے کی سیاست سے متصادم تھا لہٰذا بائیں بازو کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کیا جانے لگا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد جب روس اور سوشلسٹ بلاک مغربی سامراجی طاقتوں کے خلاف طاقت پکڑنے لگا تو امریکا اور اس کے حواریوں کو خوف لاحق ہونے لگا کہ اگر روس اور اس کے نظام کو آگے بڑھنے سے نہ روکا گیا تو سرمایہ دارانہ نظام کو اپنا بوریا بستر لپیٹنا پڑ جائے گا۔ سامراجی ملکوں نے سوشلسٹ بلاک کے خلاف جو مختلف محاذ کھولے اس میں ایک محاذ سوشلزم کے خلاف پروپیگنڈ کا محاذ تھا، مسلم ملکوں میں بھی چونکہ سوشلزم کا نظریہ مقبول ہو رہا تھا، اس کو روکنے کے لیے سوشلزم کو دین دشمن نظریہ کہا جانے لگا اور اس پروپیگنڈے کے لیے مخصوص جماعتوں کو استعمال کیا جانے لگا اور ان کی بڑے پیمانے پر مالی مدد بھی کی جانے لگی۔

لیاقت علی خان کے دور میں بیوروکریسی دو حصوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے، ایک حصہ وہ تھا جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو سامراجی ملکوں کی گرفت سے بچانا چاہتا تھا، اس حصے نے لیاقت علی خان کو ماسکو کا دورہ کرنے کے لیے تیار کیا۔ امریکا کو لیاقت علی خان کے دورہ ماسکو سے تشویش اس لیے لاحق ہوئی کہ بھارت کے بعد اگر پاکستان بھی سوشلسٹ کیمپ سے قریب ہو گیا تو ایشیا میں اس کے لیے کوئی وزن دار حامی ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا سو اس نے اپنی مغرب نواز لابی کو ہدایت کی کہ وہ ہر قیمت پر لیاقت علی خان کے ماسکو کے دورے کو رکوا کر انھیں امریکا کا دورہ کرنے پر راضی کریں، مغربی نواز لابی امریکا کی مرضی مسلط کرنے میں کامیاب رہی اور لیاقت علی خان ماسکو کے بجائے واشنگٹن چلے گئے۔

اس کامیابی کے بعد امریکا کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ پاکستان میں ترقی پسند طاقتیں مضبوط بھی ہو رہی ہیں اور پھیل بھی رہی ہیں، طلبا، مزدوروں، کسانوں، ڈاکٹروں، وکیلوں، ادیبوں، شاعروں میں اس کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں، اگر انھیں نہ روکا گیا تو مستقبل میں یہ طاقتیں اس کے مقاصد کی راہ میں حائل ہوں گی۔ سو اس نے اپنے تابع دار اور وفادار حکمرانوں اور بیوروکریسی کو ہدایت کی کہ وہ بائیں بازو کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کر کے اسے سیاست بدر کر دے۔ یہ کام پنڈی سازش کیس سے شروع ہوا جس میں بائیں بازو کے معروف اکابرین فیض احمد فیض، جنرل اکبر خان ، محمد حسین عطا سمیت بے شمار لوگوں کو راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کر کے جیلوں میں ٹھونس دیا اور بائیں بازو کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔

1958ء میں جب ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو امریکی سرکار نے ایک طرف ایوب حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے کولمبو پلان کے تحت بھاری امداد دینی شروع کی تو دوسری طرف ایوب خان کو بتا دیا گیا کہ بایاں بازو اگر آزاد رہا تو نہ صرف سوشلسٹ بلاک کے نظام کو پاکستان میں مقبول بنانے کی کوشش کرے گا بلکہ ایوب خان کے اقتدار اور امریکا کے مفادات کے لیے بھی خطرہ بن جائے گا۔

یوں ایوب خان نے بائیں بازو کے خلاف ریاستی طاقت کا بدترین استعمال شروع کیا ہزاروں کارکن اور رہنما گرفتار ہوئے بائیں بازو سے منسلک طلبا تنظیموں، مزدور تنظیموں، کسان اور ہاری تنظیموں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کی تنظیموں کو غیر قانونی قرار دے کر ہزاروں کارکنوں اور رہنماؤں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا مزدوروں کے مقبول رہنما اور دانشور حسن ناصر کو لاہور کے قلعہ میں بند کرکے اور انسانیت سوز تشدد کر کے شہید کر دیا گیا۔ یہ بائیں بازو کے خلاف دوسرا بڑا آپریشن تھا۔ ایوب خان کے بعد جمہوری رہنما بھٹو برسر اقتدار آئے تو انھوں نے بھی ترقی پسند ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ترقی پسندوں کے خلاف ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا، مزدوروں کی قیادت چونکہ ترقی پسند کر رہے تھے لہٰذا محترم نے ترقی پسند طاقتوں کے خلاف کارروائیوں میں ایوب خان اور یحییٰ خان کی اتباع کی۔

بھٹو کے بعد پاکستان کی تاریخ کا بدترین ڈکٹیٹر ضیا الحق جب برسر اقتدار آیا تو ترقی پسند طاقتوں کے خلاف جو وحشیانہ مظالم کیے، اس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ مزدور، کسان، طالب علم، وکلا، ڈاکٹر، ادیب، شاعر، فنکار، غرض زندگی کا کوئی شعبہ اس کے مظالم سے نہ بچ سکا۔ یہ ننگ انسانیت ڈکٹیٹر اقتدار کا اس قدر بھوکا تھا کہ اس نے ایک طرف اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے اسلام کا نام استعمال کرنا شروع کیا تو دوسری طرف اس نے امریکا کی ایما اور رشوت کے بدلے پاکستان کو روس کے خلاف افغانستان کی جنگ میں اس طرح دھکیل دیا کہ پاکستان کا مستقبل تباہ ہو گیا۔ آج پاکستان دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی سمیت جن عذابوں سے دوچار ہے یہ اسی ڈکٹیٹر کی حماقتوں کا پھل ہے۔ بایاں بازو ضیا الحق کے دور میں تقریباً ختم ہو گیا۔

میرے علم میں پاکستان کے بائیں بازو کی کوئی تحریری تاریخ تو نہیں ہے لیکن پچھلے دنوں ملتان سے برادرم راؤ سلیمان نے اپنی اور اپنی بیگم کی لکھی ہوئی پانچ عدد کتابیں مجھے بھیجیں راؤ صاحب کی لکھی ہوئی کتاب کا نام ’’میرا جنون‘‘ ہے، ان کی بیگم کی کتاب کا نام ’’سب ہیرے ہیں‘‘ ہے۔ راؤ سلیمان نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ترقی پسند تنظیموں کے ساتھ گزارا۔ وہ ملتان میں نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ رہے۔ راؤ کی ایک خصوصیت ان کی زیر عتاب سیاسی کارکنوں کی مدد و اعانت ہے۔ انھوں نے سیاست کے ساتھ ساتھ زرعی زمینوں کا بڑے پیمانے پر کاروبار بھی کیا اور دس دس، بیس بیس مربع خریدتے اور بیچتے رہے اور بنجر زمینوں کو آباد کر اتے رہے اس کام کی وجہ سے وہ ضرورت مندوں کی اعانت کے قابل ہوئے۔

’’میرا جنون‘‘ بائیں بازو کی ایک مختصر تاریخ کہلا سکتی ہے۔ 368 صفحات کی اس کتاب میں 200 سے زیادہ صفحات ان دوستوں کے خطوط پر مشتمل ہیں جو جیلوں، عقوبت خانوں سے انھیں لکھتے رہے ان میں میجر اسحق، سردار شوکت علی، افضل بنگش، اشفاق احمد خان، مرزا ابراہیم، چوہدری فتح محمد، اطہر رحمن ایڈووکیٹ، قسور گردیزی، سرور باری، آصف بٹ سمیت کئی لوگوں کے خط جن میں ہمارا ایک خط بھی شامل ہے۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں راؤ نے اپنی زندگی اور سیاست میں حصہ لینے کا ذکر کیا ہے۔ یہ ہے تو ان کی سرگزشت لیکن یہ ایک طرح سے بائیں بازو کا تعارف اور مختصر تاریخ بن گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔