ایک شخص پورے شہر کو ویران کر گیا

شہباز علی خان  پير 30 مارچ 2015
لیاقت سولجر بے پناہ صلاحیتوں کا مالک تھے، وہ پیدائشی مزاحیہ فنکار تھے.

لیاقت سولجر بے پناہ صلاحیتوں کا مالک تھے، وہ پیدائشی مزاحیہ فنکار تھے.

ہم اور ہمارا معاشرہ ایک عجیب طرح کی معاشی و معاشرتی ناہمواری کا شکار تو ہیں ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ طویل عرصے سے جاری دہشت گردی کے افسوسناک تسلسل نے زندگی کے سارے خوبصورت رنگوں کو بدرنگ کرکے ہر سو خوف کی سیاہ چادر پھیلا دی ہے۔

ہم نے زندگی کو کئی طرح کے بیزار کر دینے والے مسائل میں نا صرف الجھا لیا ہے بلکہ اس میں سے خوشی، سکون اور مسکراہٹ جیسے عناصر بھی نکال باہر کئے ہیں۔ ان زہریلی فضائوں کے درمیان آکر اگر کوئی شخص مسکراہٹیں اور قہقہے ہمارے چہروں پر سجا دیتا ہے تووہ کوئی عام انسان نہیں خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے۔

ایسا ہی ایک نام لیاقت علی عرف لیاقت سولجر کا تھا۔ انہوں نے 1952 ء میں ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی،انہیں لکھنے لکھانے کا شوق شروع سے ہی تھا مگر 1970ء کی دہائی میں اسٹیج ڈرامہ ’’تم کیا جانو‘‘سے اپنی فنی زندگی کا ایسا آغاز کیا جس کا اختتام زندگی کی آخری سانس پر ہی ہوا۔

انہوں نے 250 سے زائد ڈراموں میں بطور کامیڈین اداکاری کے جوہر دکھائے، انہوں نے اسٹیج ڈراموں کے نامی گرامی فنکاروں عمر شریف، معین اختر، حنیف راجہ، فرقان حیدر، شہزاد رضا کے ساتھ نہ صرف بہترین اور معیاری کام کیا بلکہ ایک ایسی شناخت بنائی کہ آج تک ان کے طنز و مزاح اور انداز بیاں کی تازگی دیکھنے والوں کو قہقے لگانے پر نہ صرف مجبور کر دیتی ہے بلکہ معاشرتی کمزوریوں اور انسانی نفسیات کی بہت سی پیجیدگیوں کا حل بھی سامنے رکھ دیتی ہے۔

لیاقت سولجر بے پناہ صلاحیتوں کا مالک تھے، وہ پیدائشی مزاحیہ فنکار تھے۔ ان کی گفتگو اور پھر چہرے کے تاثرات ایسے ہوتے تھے کہ اسٹیج پر آمد کیساتھ ہی دیکھنے والوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ لیاقت سولجر کا ہر ایک جملہ لوگوں کو نہ صرف دل کھول کر ہنسنے پر مجبور کردیتا تھا بلکہ ہال تالیوں سے گونج اٹھتا تھا۔ انہوں نے چند ایک فلموں میں بھی کام کیا۔ ان کی پہلی فلم ’’قید‘‘ تھی جسے مشہور فلمی اداکارہ سنگیتا نے بنایا اور ان کے مد مقابل اس وقت کے نامور فنکار زیبا بختیار، سعود اور معمر رانا تھے۔ اس کےعلاوہ زیبا کی فلم’’ بابو‘‘ میں بہترین ادکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کا خود کہنا تھا؛

’’ مجھے اسٹیج نے ہی شناخت دی ہے، بے شک ٹیلی ویژن پر بھی ڈرامے کئے مگر اسٹیج پر آپ کو فوری ردعمل مل جاتا ہے کہ آپ نے کتنا بہتر کام کیا ہے اور یہی چیز میرے لئے اہم ہے۔ میں ایک کامیڈین ہوں اور مجھے اپنے اسی کردار سے محبت ہے سنجیدہ طرز کے کردار میری فطرت ہی میں نہیں ہیں‘‘

وہ عام زندگی میں بھی مزاحیہ فنکار ہی تھے، وہ ہر بات کو اس طرح گھما کر ادا کرتے کہ ان کے سامنے چاہے ان کا کوئی ساتھی فنکار ہو یا عام سا آدمی وہ بھی گھوم کر رہ جاتا تھا۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکر یوں کیا؛

’’میرا ایک دوست ملیشیاء سے آیا ہوا تھا، ہم نے ملاقات کی جگہ آغا خان اسپتال کے قریب ہی طے کی، میں قبل از وقت پہنچ گیا اور پارکنگ میں انتظار کرنے لگا کہ اچانک ایک آدمی جو میری کار کے قریب ہی کھڑا تھا اس نے پستول نکالی اور مجھ سے موبائل فون کی فرمائش کی، میں نے کچھ سیکنڈز بعد اپنے حواس کو قابو میں کیا اور طے کر لیا کہ فون اسے نہیں دینا ہے میں نے اس سے باتیں شروع کردیں اور پھر اس نے مجھ سے موبائل تو کیا لینا تھا بلکہ جاتے ہوئے نہ صرف خدا حافظ کہا بلکہ یہ بھی درخواست کی کہ میں دعائوں میں بھی اسے یاد رکھوں‘‘

اسٹیج ڈرامہ پروڈیوسر عثمان میمن ڈرامہ ختم ہونے کے بعد رقم کی ادائیگی کر رہے تھے تو جب لیاقت سولجر کی باری آئی تو انہوں نے کہا کہ لیاقت کو بعد میں دے دینگے یہ تو گھر کا ہی آدمی ہے۔ لیاقت سولجر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ بھائی میں نے تو آپ کا گھر ہی نہیں دیکھا ہے۔

لیاقت سولجر نے اسٹیج ڈرامے ڈائریکٹ بھی کئے جو بہت مشہور ہوئے، جن میں ’’ائوے ائوے‘‘، ’’عید ائیر پورٹ‘‘ اور ’’عیدی دے دو‘‘ نے بے پناہ کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ انہوں نے ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک بھی پاکستانی اسٹیج ڈرامے کئے ۔

لیاقت سولجر کو آج کے ہی دن 30 مارچ 2011 کو ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کی خصوصی ٹرانسمیشن کے دوران دل کا دورہ پڑا اور بدقسمتی سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ان کا سر ان کے ساتھی شہزاد رضا کی گود میں تھا جب وہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔

آج بھی جب ان کے ڈرامے سامنے آتے ہیں تو ایک لمحہ کے لئے انسان سب غموں پریشانیوں سے بیگانہ ہوجاتا ہےاور ہر سو قہقے پھیل جاتے ہیں ۔ لیاقت سولجر کی ان گنت جملے آج بھی لوگوں کے دلوں پر نقش ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بھی ہم انہیں نہیں بھولے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔