آرٹس کونسل کے اکابرین کا وژن

ظہیر اختر بیدری  منگل 31 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

آرٹس کونسل کراچی ایک خالص جمہوری ادارہ ہے جہاں ہر سال دسمبر میں نئی انتظامیہ کے انتخابات کے لیے آرٹس کونسل کے ارکان ووٹ ڈالتے ہیں، ارکان کے ووٹوں سے ایک سال کے لیے نئی انتظامیہ منتخب ہوتی ہے، ہماری سیاست میں باریوں کا کلچر مضبوط ہے اور مفاہمتی پالیسی کی برکات سے دو پارٹیاں باری باری حکومت میں آتی ہیں۔

آرٹس کونسل کی خوش قسمتی ہے کہ نہ یہاں دو پارٹیاں ہیں نہ مفاہمتی کلچر نہ باری باری اقتدار میں آنے کی روایت، آرٹس کونسل کی انتظامیہ کی کارکردگی اس قدر شاندار ہوتی ہے کہ رائے دہندگان برسوں سے ایک ہی گروپ کو اقتدار سونپ رہے ہیں۔ آرٹس کونسل میں اگرچہ ایک فعال ٹیم موجود ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ایک آرٹس کونسل کی مشہوری اور ہر دلعزیزی میں آرٹس کونسل کے سیکریٹری احمد شاہ کی ہمہ جہت قابلیت کا بڑا دخل ہے۔

آرٹس کونسل فنکاروں، ادیبوں اور شاعروں کا ادارہ ہے جس کا بنیادی کام فن اور ادب کی ترویج و ترقی ہے، اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ آرٹس کونسل اپنی ذمے داریاں بحسن و خوبی پوری کررہی ہے۔ مہینے کے 20،25 دن بہترین ثقافتی پروگراموں کے لیے وقف ہوتے ہیں اور آرٹس کونسل کے ممبران ان تفریحی پروگراموں سے محظوظ ہوتے ہیں۔

کراچی کی آبادی لگ بھگ دو کروڑ ہے اور آرٹس کونسل کے ممبران کی تعداد چند ہزار ہے، ظاہر ہے آرٹس کونسل کے ثقافتی پروگراموں سے یہی ارکان مستفید ہوسکتے ہیں، کراچی کے دو کروڑ کے لگ بھگ عوام کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ آرٹس کونسل کے ثقافتی پروگراموں سے مستفید ہوں۔ غالباً اسی صورت حال کے پیش نظر آرٹس کونسل کے اکابرین نے ’’آرٹ لورز‘‘ کے لیے بھی آرٹس کونسل کی ممبر شپ کھول دی ہے اور اﷲ کے فضل سے ہزاروں آرٹ لور بھی ثقافتی پروگراموں سے مستفید ہورہے ہیں اور آرٹس کونسل کے انتخابات میں اپنا انتہائی مثبت رول بھی پلے کررہے ہیں۔

بعض حلقوں کی طرف سے دبے دبے لفظوں میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ آرٹس کونسل کے ثقافتی پروگراموں کو آرٹس کونسل کی چہار دیواری سے نکال کر شہر کے مختلف علاقوں تک پھیلایا جائے تاکہ اس کارخیر سے زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکیں لیکن اس قسم کی تجویزوں میں کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہوگی تب ہی انتظامیہ ان پر غور کرکے اپنا وقت برباد نہیں کرتی۔ یہ بھی ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ شاہ صاحب کونسل کی ترقی کے ساتھ تعمیر پر بھی بھرپور توجہ دے رہے ہیں، کیوں کہ ترقی سے زیادہ اہم چیز تعمیر ہے، ہماری موجودہ حکومت بھی تعمیر پر بھرپور توجہ دے رہی ہے، کراچی سے لاہور، اسلام آباد تک موٹروے کی تعمیر ایک ایسا شاندار پروجیکٹ ہے جس سے بہتوں کو ناقابل یقین فائدہ ہوگا۔

جب غیر ملکی عمائدین ہماری ہزاروں کلومیٹر طویل شیشے جیسی موٹروے پر سفر کریںگے تو نہ صرف ان کی آنکھیں چکا چوند ہوںگی بلکہ وہ خوش ہوکر مزید کروڑوں ڈالر امداد کا اعلان کریں گے۔ بعض جیلس حلقوں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ اس تعمیر میں اربوں روپوں کی ’’ریل پیل‘‘ ہوتی ہے، سو اس قسم کے اعتراض کہاں نہیں ہوتے۔ اعلیٰ قوت ارادوں کے مالک اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ یہاں موٹر وے کا ذکر ہم نے اس لیے کردیا کہ آرٹس کونسل کی انتظامیہ تعمیر کے جو کام کررہی ہے وہ کسی موٹروے سے کم نہیں، فن اور ثقافت کے پروگراموں پر عمل در آمد کے لیے خوبصورت عمارتوں اور ہالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

جیساکہ ہم جانتے ہیں آرٹس کونسل ایک ادبی اور ثقافتی ادارہ ہے جس کا مقصد عوام کی ذہنی تفریح و تسکین ہے اور یہ کام بھرپور طریقے سے کیا جارہاہے لیکن اس حوالے سے ایک چھوٹی سی بات عرض کرنی ہے کہ کراچی کے عوام جن عذابوں یعنی مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی سے گزرہے ہیں اگرچہ ان عذابوں سے نمٹنے کے لیے آپریشن پر آپریشن کیے جارہے ہیں لیکن ان کی افادیت گہری اور دور رس نظر نہیں آتی کیوں کہ جب تک عوام میں فکری تبدیلی پیدا نہیں کی جاتی ان عذابوں سے مستقل چھٹکارا ممکن نہیں۔ دہشت گردی جہالت کی پیداوار ہے اور جب تک جہالت باقی ہے مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی ختم نہیں کی جاسکتی۔ دہشت گردوں پر جہل کا الزام لگتا ہے لیکن ان کی عقل و فہم کا ان کی منصوبہ بندی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہزاروں نوجوانوں کو خودکش حملوں کے لیے تیار کرلیتے ہیں یہ فکری تبدیلی کا زمانہ ہے۔

ادب اور شاعری دو اس قدر طاقتور صنفیں ہیں کہ اگر انھیں عوام میں فکری تبدیلی کے لیے منظم اور منصوبہ بند طریقے سے استعمال کیا جائے تو عوام میں جہل اور مذہبی انتہاپسندی کے حوالے سے ایک فکری انقلاب پیدا ہوسکتا ہے۔ 1947 کے قتل عام کے بعد جو ادب جو شاعری تخلیق کی گئی اس نے نہ صرف ان زخموں پر پھایا رکھ دیا جو مذہبی انتہاپسندوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو لگائے تھے بلکہ متصادم عوام میں محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اگر ہم سے زیادہ مخلص اور سمجھ دار آرٹس کونسل کے اکابرین ایک جامع پروگرام کے تحت ایک پبلشنگ ہاؤس قائم کریں جو انسانوں کے درمیان محبت اور اخوت پیدا کرنے والے ادب اور شاعری کے سستے ایڈیشن چھاپ کر انھیں عوام تک رسائی کا ایک نیٹ ورک بنائیں تو یہ تعمیر و ترقی، فن و ثقافت سے بہت بڑا کام ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ اگر ماضی کی طرح کیبن لائبریریوں کا جال بچھادیں تو اس کے نتائج اس قدر مثبت اور حیران کن ہوںگے کہ آرٹس کونسل کو اس پر فخر کرنے میں کسی قسم کی شرمندگی کا سامنا نہیں ہوگا، ہم نے تجاویز پیش کردیں۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف۔ یہاں ایک بات کی تعریف کرنا ضروری ہے کہ آرٹس کونسل کے عہدیدار دوستوں کے فون اٹھانے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کرتی یہ ایک ایسی اعلیٰ ظرفی ہے جس کی تعریف کرنا ہماری ذمے داری بھی ہے اور فرض بھی اس ایک خوبی سے آرٹس کونسل کے اکابرین کی اعلیٰ کارکردگی کا اندازا کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔