نابینا مصوّر کے تخلیق کردہ فن پارے بیناؤں کو شرماتے ہیں

ندیم سبحان  منگل 31 مارچ 2015
فن کار قدرت کی عطاکردہ نعمت کے سہارے خوب صورت تصاویر اور مناظر تخلیق کرتا :فوٹو:فائل

فن کار قدرت کی عطاکردہ نعمت کے سہارے خوب صورت تصاویر اور مناظر تخلیق کرتا :فوٹو:فائل

مصوّری ایک تخلیقی عمل ہے جس میں فن کار اپنے تخیل سے کام لیتے ہوئے کینوس پر دل کش مناظر اُبھارتا ہے۔ اس تمام عمل میں حس بصارت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

فن کار قدرت کی عطاکردہ اسی نعمت کے سہارے خوب صورت تصاویر اور مناظر تخلیق کرتا ہے۔ اگر آپ سے کہا جائے کہ نابینا بھی مصوری کرسکتے ہیں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ مگر امریکی ریاست ٹیکساس کے رہائشی جون بریمبلٹ نے ثابت کردیا ہے کہ مصوری کا تعلق محض بینائی سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ فن صرف آنکھ والوں کے لیے مخصوص ہے بلکہ نابینا بھی اس فن میں بیناؤں جیسی مہارت حاصل کرسکتے ہیں۔ جون کے تخلیق کردہ سیکڑوں دل کش فن پارے اس کا ثبوت ہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/150.jpg

جون کی عمر اب سینتیس سال ہے۔ اسے دو برس کی عمر سے مرگی کے دورے پڑا کرتے تھے۔ جون گیارہ سال کا ہوا تو یہ مرض اس کی بینائی پر اثرانداز ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ آنکھوں کی روشنی ماند پڑنے لگی اور بائیس سال کی عمر میں وہ مکمل طور پر نابینا ہوچکا تھا۔ عین عالمِ شباب میں جون کی دنیا اندھیر ہوگئی تھی۔ نہ صرف دنیا اندھیر ہوئی تھی بلکہ اس کے سارے خواب، سارے ارمان بھی اس دائمی تاریکی کی نذر ہوگئے تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ایک کام یاب زندگی گزارنا چاہتا تھا لیکن بینائی سے محرومی حصول تعلیم کی خواہش کو بہا لے گئی۔

یہ جون کے لیے انتہائی مشکل دور تھا۔ وہ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکا تھا۔ اسی عالم میں ایک سال گزر گیا۔ دنیا کی رنگینیاں اس سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ گئی تھیں، دل کش رنگین مناظر اس کے لیے خواب ہوگئے تھے۔ پھر مایوسی کی دلدل سے ایک نئے جون نے جنم لیا جس کا عزم آہنی تھا۔ جون فطرت کے رنگین نظاروں سے محروم ہوچکا تھا مگر وہ اپنے تخیل میں رنگین مناظر سجا سکتا تھا۔ اس نے اپنے پردۂ تصور پر اُبھرنے والے رنگین مناظر کو کینوس پر منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ نابینا ہونے کے پیش نظر اس نے انتہائی مشکل راہ چُنی تھی، مگر اس راہ پر چلنے کے لیے وہ پُرعزم تھا۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/228.jpg

جون نے مصوری کی ابتدا گِلو سے کینوس پر آڑی ترچھی لکیریں بناکر کی۔ خشک ہونے پر یہ لکیریں سخت ہوجاتی تھیں اور جون انگلیوں کی پوروں کی مدد سے ان کے خدوخال کو محسوس کرسکتا تھا۔ ایک عرصے تک وہ اسی طرح گلو کی مدد سے مختلف خاکے بنانے کی مشق کرتا رہا۔ پھر اس نے ان خاکوں میں برش کی مدد سے رنگ بھرنا شروع کیے۔ قدرت نے اسے بینائی سے محروم کرکے چُھوکر محسوس کرنے کی زبردست حس عطا کردی تھی۔ رفتہ رفتہ اس میں لمس کے ذریعے رنگوں کو شناخت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ جون نے مسلسل مشق اور اتکاز توجہ کے ذریعے اس صلاحیت کو نکھارا۔ اس نے مختلف جذبات و احساسات کو بھی رنگوں کے ذریعے دیکھنا شروع کیا۔ مثال کے طور پر ڈر و خوف اس کے نزدیک سرخ و سیاہ رنگ کا آمیزہ ہے۔

ایک عرصے تک گلو سے خاکے بنانے کی مشق کے بعد وہ اس مقصد کے لیے فیبرک پینٹ استعمال کرنے لگا۔ وہ مسلسل کئی کئی گھنٹے تک مشق کرنے میں جُتا رہتا تھا۔ رفتہ رفتہ جون کے فن میں نکھار آتا گیا۔ پہلے جو تصویر وہ چودہ گھنٹے میں مکمل کرتا تھا اب اس کی تکمیل میں کئی گنا کم وقت صرف ہونے لگا تھا۔ اسی طرح اس کے ہاتھ میں بھی صفائی آتی گئی۔ جون کے پردۂ تصور پر اُبھرنے والے مناظر کینوس پر بکھرتے چلے گئے۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/318.jpg

رفتہ رفتہ اس غیرمعمولی مصور کی شہرت پھیلنے لگی۔ آج وہ اپنے میدان کا جانا پہچانا نام بن چکا ہے۔ دس سال کے دوران جون کو متعدد اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔ جون کا کہنا ہے بینائی سے محرومی کے بعد میں مایوسی کی گہرائیوں میں ڈوب چکا تھا۔ میں پریشان تھا کہ زندگی کیسے گزرے گی۔ پھر قدرت نے مجھ میں حوصلہ پیدا کیا۔ میں نے خود بھی ہمت مجتمع کی اور عزم کرلیا کہ اس محرومی کو اپنی راہ کی رکاوٹ بننے نہیں دوں گا۔

جون کے مطابق اب اسے مطلق احساس نہیں ہوتا کہ وہ نابینا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے تمام کام بہ آسانی کرلیتا ہے بلکہ بہ طور مصور اس کے حصے میں وہ شہرت اور عزت آئی ہے جس سے ان گنت آنکھوں والے محروم ہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/416.jpg

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔