’’ میں ایسا کہاں تھا پہلے‘‘

اصغر عبداللہ  بدھ 1 اپريل 2015
mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

[email protected]

دن کے ابھی صرف گیارہ بجے تھے ، لیکن لگتا یوں تھا کہ شام ہونے کو ہے ۔ سورج سیاہ گھٹاوں کے پیچھے چھپ گیا تھا ، اور ہوا میں اس طرح کی خنکی در آئی تھی کہ جیسے کہیں برف سے لگ کے آ رہی ہو ۔گھر سے نکلتے وقت لمحہ بھر کے لیے یہ تو سوچا تھا کہ گرم کوٹ پہن لوں ، لیکن یہ کہ اس طرح یکدم ہی سردی میں اضافہ ہو جائے گا ، یہ نہیں سوچا تھا ۔

لاہور کے کلمہ چوک کے قریب ہلکی ہلکی پھوار بھی پڑنے لگی ۔ طارق عزیز صاحب کے گھر کے باہر گاڑی میں سے نکلتے ہی میں نے شرٹ کے کالر اوپر کر لیے۔ برفیلی ہوا کا تیز جھونکا مجھ سے ٹکرایا ، لیکن پوری طرح اس کی لپیٹ میں آنے سے پہلے ہی میں ان کے اسٹڈی روم میں پہنچ چکا تھا ۔

گہری چپ میں ڈوبے ہوئے اس گھر میں گزشتہ کئی برسوں سے آ رہا ہوں، بلکہ اب تو یہاں آکے بڑی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے ۔ اور پھر ، جب دوران ملاقات میں طارق عزیز صاحب اپنی بھولی بسری یادوں کے دریچے کھولتے ہیں ، ٹی وی ، فلم ، سیاست اور ادب سے وابستہ اپنے ماضی کے طرحدار کرداروں کو یاد کرتے ہیں ، تو یہ کردار چلتے پھرتے، جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں۔ یوں ان سے یہ ملاقات عہد رفتہ سے ملاقات بھی بن جاتی ہے۔

طارق عزیز صاحب پر شہرت ٹوٹ کر برسی ہے۔ پاکستان و بھارت کی ٹی وی اسکرین پر آج جتنے بھی ذہنی آزمایش کے پروگرام پیش کیے جا رہے ہیں ، ان سب کا باوم آدم ’’ نیلام گھر‘‘ ہی ہے ۔ سیاست میں پہلے بھٹو کی قیادت میں اور پھر نوازشریف کی رفاقت میں کام کیا اور1997ء پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے ۔ بھارت میں تو کئی مثالیں موجود ہیں ، لیکن پاکستان میں وہ تنہا فنکار ہیں ،جو انتخابی سیاست میں کامیاب رہے۔

طارق عزیز صاحب ، شعروادب کا نہ صرف یہ کہ بہترین ذوق رکھتے ہیں، بلکہ پنجابی اور اردو میں شاعری بھی کرتے ہیں ۔ ان کی پنجابی شاعری کا مجموعہ ’’ ہمزاد دا دکھ ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے ۔ آج جب گھر سے ان کو ملنے کے لیے نکلا ، تو یہ ارادہ کرکے نکلا کہ آج اگر شعروادب پر بات ہو سکی تو ان سے ان کا اردوکلام ضرور سنوں گا۔ انھی خیالوں میں گم تھا کہ طارق عزیز صاحب کی مخصوص گرج دار آواز گونجی ، ’’جی عبداللہ ، کیا ہو رہا ہے ؟‘‘

’’سر ، اچھا ہوں ۔‘‘ میں نے کہا

وہ بیٹھ گئے اور جیسا کہ ان کی عادت ہے ۔ اس اثنا میںچائے بھی آ گئی۔ میں نے ان کے سامنے ن م راشد کے کلیات کا پاکٹ ایڈیشن ’’ خواب لے لو، خواب ‘‘ رکھا ، اور پوچھا ، سر ، ن م راشد سے کبھی ملنا ہوا ۔

انھوں نے میری طرف دیکھا ، جیسے کسی خواب سے جاگ گئے ہوں۔ ’’عبداللہ ، یہ تم نے کس دور کی بات کرا دی ‘‘، ’’ یہ کالج کے دنوں کی بات ہے۔ منٹگمری میں کوئی مشاعرہ تھا ۔ ن م راشد اس کی صدارت کر رہے تھے۔ مجید امجد صاحب اور منیر نیازی صاحب کی ادبی مجلسوں میں بیٹھنے کی وجہ سے شاعری کا لپکا مجھے لگ چکا تھا ۔ چنانچہ میں نے بھی مشاعرہ میں نظم پڑھی ، جو کچھ یوں تھی ،

دوست یہ تو کی ہے تو نے بچوں کی سی بات
جو کوئی چاہے پا سکتا ہے خوشبووں کے بھید
اس میں دل پر گہرے درد کا بھالا کھانا پڑتا ہے
ہنستے بستے گھر کو چھوڑ کے بن میں جانا پڑتا ہے
تنہائی میں عفریتوں سے خود کو بچانا پڑتا ہے
خوشبوگھر کے دروازوں پر کالے راس رچاتے ہیں
جو بھی واں سے گزرے اس کو اپنے پاس بلاتے ہیں
زہر بھری پھنکار سے اس کے جی کو خوب ڈراتے ہیں
جو کوئی چاہے پا سکتا ہے خوشبووں کے بھید

نظم پڑھ کے اٹھا ، تو ن م راشد اٹھے ، میرے پاس آئے، مجھے تھپکی دی اورکہا، بہت اچھوتی نظم ہے، نوجوان لکھتے رہو، لکھنا نہ چھوڑنا ۔ ‘‘’’ اردو شاعری کی اس کے بعد ، پھر آپ نے ؟ ‘‘میں نے جھجکتے جھجکتے پوچھا
’’کی، مگر کم کم ۔ ‘‘ پھر یکبارگی ا ن کے چہرے پر گہری افسردگی چھا گئی ۔ ان کی آواز بھرا گئی۔’’ میرا باپ میاں عبدالعزیز اگست 1947 میں جالندھر سے اپنا بھرا پُرا گھر چھوڑ کر نکلا تھا ۔ ماں اور بہن بھائیوں کے ساتھ ، میں بھی اس کے ہمراہ تھا ۔ پاکستان آکے اس نے بڑی ہی کسمپرسی کی زندگی گزاری، اور پھر ایک روز ایبٹ آباد کے سینیٹوریم میں بیماری اور غربت سے لڑتے لڑتے مرگیا ۔ ان دنوں میری بڑی عجیب حالت تھی ۔ اس شعر میں انھی دنوں کی کیفیت ہے ؎

شب دیر تک وہ روتا رہا ، صبح مر گیا
مجھ کو تو یہ عجیب لگا ، جو وہ کر گیا

شعروشاعری کی بات ہو اور طارق عزیز صاحب ، مجید امجد کا تذکرہ نہ کریں ، یہ ممکن نہیں۔ اپنے والد کے علاوہ اگر کسی کے بارے میں ، میں نے ان کو گہری محبت اوراحترام سے بات کرتے دیکھا ہے، تو وہ مجید امجد ہیں ۔ منٹگمری میں یہ میاں عبدالعزیز کے پانچ مرلہ گھر کی چھوٹی سی بیٹھک تھی، جہاں مجید امجد بلاناغہ بیٹھتے تھے۔

یہ تعلق خاطر موت کے بعد بھی برقرار ہے کہ میاں عبدالعزیز کی قبر کے کتبہ پر مجید امجد ہی کا شعر کندہ ہے۔ ’میں نے جب پہلی بار شعر لکھے ‘طارق عزیز صاحب نے بتایا ،’ تو مجید امجد صاحب ہی کو پیش کیے ، انھوں نے اصلاح بھی کی اور حوصلہ افزائی بھی ۔

پھر طارق عزیز صاحب اپنے بچپن میں کھو گئے ، ’’ میٹرک کے امتحان قریب تھے ۔ میں منٹگمری اپنے گھرمیں امتحان کی تیاری کر رہا تھا ۔ چند چھت چھوڑ کر’ وہ‘ بھی اپنے گھر کی چھت پر ادھر سے ادھر ، ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی ۔ جیسے ہی ہماری نظریں ٹکرائیں، اس نے مجھے اشارہ کیا ۔ میں نے بھی حوصلہ پا کر اشارے سے اس کا نام پوچھ لیا ۔ وہ یکدم غائب ہو گئی۔

اب میں سہم گیا کہ ابھی اس کے بھائی چھت پر آئیں گے ، اور پھر اپنی خیر نہیں۔ لیکن ، تھوڑی دیر بعد وہ اکیلی ہی اوپر آئی ۔ اس کے ہاتھ میں کوئلہ تھا، جس سے اس نے دیوار پر بڑا کرکے اپنا نام لکھ دیا ، اور پھر ہنستی ہوئی نیچے چلی گئی۔ میں نے اس روز کے بعد اس لڑکی کو کبھی نہیں دیکھا، نہ چھت پر ، نہ کہیں باہر ۔ برسوں بعد جب میں پی ٹی وی کراچی میں تھا ، اور کرایے کے ایک کمرہ میں رہ رہا تھا ، تو تنہائی کے ان دنوں میں نجانے کیوں اس لڑکی کی یہ معصومانہ اور جرات مندانہ ادا مجھے بہت یاد آئی ۔ یہ قطعہ انھی دنوں کی یادگار ہے ؎

گھر کی چھت پہ کھڑا تھا میں
جب اس نے پیار جتایا تھا
کوئلے سے دیوار پہ لکھ کر
اپنا نام بتایا تھا

بچپن کے دنوں کی اس کیفیت کا تذکرہ کرکے طارق عزیز صاحب کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے ، لیکن اس اداسی میں اب کوئی اضطراب نہیں تھا ، جیسے الاؤ بجھ چکا ہو، اور کہیں اندر ہی اندر بس کوئی چنگاری سلگتی رہ گئی ہو ۔ فلم سنڈریلا کا بہت مشہور مکالمہ ہے time passed and pain turned ito memory ، کچھ اس طرح کی کیفیت ان پر طاری تھی، منیر نیازی نے جس کو اس طرح شعروں میں ڈھالا ہے کہ

میں اس کی آنکھوں کو دیکھتا رہتا ہوں
مگر میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
میں اس کی باتوں کو سنتا رہتا ہوں
مگر میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
اب اگر وہ کبھی مجھ سے ملے
تو میں اس سے بات نہیں کروں گا
اس کی طرف دیکھوں گا بھی نہیں
میں کوشش کروں گا
میرا دل کہیں اور مبتلا ہو جائے
اب میں اسے یاد بنا دینا چاہتا ہوں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔