کتاب آشوب

امجد اسلام امجد  جمعرات 2 اپريل 2015
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

برادر عزیز سرور سکھیرا اکثر SMS پر بہت دلچسپ اور خیال افروز باتیں بھیجتے رہتے ہیں جو ان کی شاندار حس مزاح کی بھی ترجمان ہوتی ہیں لیکن ان کا حالیہ پیغام ایسا ہے کہ جیسے کسی نے زخم پر انگلی رکھ دی ہو اسے پڑھ کر پہلے تو ہنسی آئی مگر اس کے فوراً بعد طبیعت میں ایسی بے چینی نے گھر بنا لیا کہ اسے اپنے قارئین سے شیئر کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ آیئے پہلے اس پیغام کو پڑھتے ہیں۔

’’جب جوتے شیشوں کی الماری میں رکھ کر بیچے جائیں اور کتابیں فٹ پاتھ پر بکتی ہوں تو سمجھ لوکہ اس قوم کو علم کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے ۔‘‘

فی زمانہ ہمارے معاشرے میں کتاب پر جو گذر رہی ہے اسے اگر شہر آشوب کی رعایت سے ’’کتاب آشوب‘‘ کا نام دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا کہ اٹھار کروڑ سے زائد آبادی والے وطن عزیز میں شعر و ادب کی بہترین کتابوں کا ایک ایڈیشن صرف ایک ہزار کاپیوں پر مشتمل ہوتا ہے اور مستشنیات سے قطع نظر وہ ایڈیشن بھی کئی کئی سال میں ختم نہیں ہوتا۔

جب کہ آبادی کے اعتبار سے ہم سے چھوٹے معاشروں میں یہ لاکھوں کی تعداد میں چھپتی اور فروخت ہوتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس پر مجھ سمیت بے شمار ادب دوست مسلسل لکھتے رہتے ہیں مگر جو لوگ اس کے ذمے دار ہیں ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اسکولوں‘کالجوں اور پبلک لائبریریوں کا وجود صرف سرکاری فائلوں اور اعداد و شمار کی گھمن گھیریوں میں ملتا ہے اور جہاں یہ ہیں وہاں بھی صرف پروفیشنل علوم سے متعلق درسی یا نیم درستی کتابوں کو ہی کتاب سمجھا جاتا ہے عام طور پر اس کی ایک وجہ کمپیوٹر اور دیگر متعلقہ معلوماتی سہولتوں کی فراوانی بتائی جاتی ہے جو آدھے سے بھی کم سچ ہے اس موضوع پر مزید بات کرنے سے قبل آئیے برادرم گلزار کی ایک نظم دیکھتے ہیں جس کا منظر نامہ ان کے مخصوص طرز فکر اور انداز بیان کے باعث پرلطف بھی ہے اور قابل توجہ بھی۔

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
جو رشتے وہ بناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے سے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
زبان پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا
انگلی کلک کرنے سے بس ایک جھپکی گذرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا‘ وہ کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
گبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے‘ چھوتے تھے جبیں سے

یہ اور اس قسم کا سارا ناسٹلجیا اور رومانس بعض احباب کے نزدیک صرف ایک یا دو نسلوں کا مسئلہ ہے کہ ان کے خیال میں آیندہ نسلیں جو لکھنا اور پڑھنا سیکھیں گی ہی کمپیوٹر پر ‘ ان کے لیے کتاب ایک گئے وقتوں کی ازکار رفتہ چیز ہو گی ۔

جس کا ان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو گا یہ بات ایک حد تک درست ہو سکتی ہے لیکن اسے واحد سچ کہنا یا سمجھنا مناسب نہ ہو گا الیکٹرانک DATA میں محفوظ معلومات اور کتاب میں درج انفرادی اور اجتماعی بصیرت کا حامل علم بہت کچھ مشترک ہونے کے باوجود دو مختلف قسم کے تجربے بھی ہیں دونوں کی FEEL میں فرق ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود صدیوں پر پھیلے اس اجتماعی حافظے اور ہر انسان کے اس انفرادی تعلق کی نرمی‘ حرارت اور احساس کا نعم البدل نہیں بن سکتیں جس کی ترجمانی کتاب اپنی روایت اور صورت کے حوالے سے کرتی ہے۔

چند برس قبل میں نے ’’کتاب‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی آخر میں اپنی بات کی مزید وضاحت کے لیے اسے ہی درج کیے دیتا ہوں

کتاب
جس طرح ساز مل کر ایک سمغنی بنائیں
مل جل کے جیسے پنچھی نغمہ کوئی سنائیں
البم میں بکھرے چہرے اک انجمن سجائیں
کلیوں کے رنگ جیسے پھولوں میں جھلملائیں
بالکل اسی طرح سے
حرفوں کی آہٹوں پرلفظوں کے بخت جاگیں
جاگیں تو ساتھ اپنے ہر چیز کو جگائیں
ہر اک ورق میں جس کے دنیا نئی نئی ہے
مندر ہے جس میں ہر دم گھنٹی سی بج رہی ہے
رہتی اسی طرح ہے جس طرح کوئی چاہے
سینے پہ ہو کبھی یہ‘ تکیے تلے ہو گاہے
لیکن یہ جب کبھی بھی آنکھوں کے روبرو ہو
حرفوں میں اور دلوں میں خاموش گفتگو ہو
جتنے ہیں شش جہت کے سب تار یہ ہلا دے
ہاتھوں میں پھول بھر دے پوروں کو جگمگا دے
مانگیں گے جو بھی اس سے‘ سب کچھ کتاب دے گی
جتنے سوال اب تک ذہنوں میں اٹھ چکے ہیں
اور جو ہیں اٹھنے والے ‘ سب کا جواب دے گی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔